بہار حکومت کی نئی تعلیمی پالیسی میں اردو زبان سے سوتیلا رویہ اختیار کرنے کے سلسلے میں ہرطرف حکومت کے خلاف آواز بلند ہو رہی ہے۔
بہار کے محکمۂ تعلیم نے ایک سرکولر جاری کر کے نصاب سے اردو کی لازمیت ختم کر دی ہے۔ اس کی مخالفت میں سیاسی رہنماء و محبان اردو کا ایک وفد بھی محکمۂ تعلیم کے وزیر سے ملاقات کر چکا ہے۔ تاہم وزیر موصوف نے ٹال مٹول کر دیا ہے۔ حکومت تک جن لوگوں کی پہنچ ہے، انہوں نے اس موضوع پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔
ای ٹی وی بھارت اردو نے 'بہار میں اردو کا مستقبل تاریک یا تابناک ' کے سوال کے ساتھ گیا کے پروفیسرز حضرات سے اس کے متعلق رائے لی ہے۔
مرزاغالب کالج کے سابق پروفیسر انچارج و شعبۂ اردو کے سابق ایچ او ڈی پروفیسر ڈاکٹر حفیظ الرحمن خان نے کہا کہ 'اردو کا مستقبل تاریک یا تابناک یہ ایک ایسا موضوع ہے جس سے حکومت کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اردو کو جو کچھ زک پہنچی وہ زیادہ تر اردو والوں سے پہنچی ہے اور یہ بہت معمولی لڑائی ہے کہ نصاب میں اردو کی لازمیت کو ختم کیا گیا، اگر ہم چاہیں تو ایک جگہ آکر اپنی آواز بلند کر کے یہ لازمیت برقرار رکھنے کی کوشش کر سکتے ہیں اور حکومت تک پرزور طریقے سے آواز بلند کی جا سکتی ہے لیکن اردو کو جو نقصان پہنچ رہا ہے وہ اردو دانوں کی وجہ سے ہی پہنچ رہا ہے۔'
انہوں نے کہا کہ 'ان کی ذاتی رائے یہ ہے کہ اردو اس وقت تک زندہ رہے گی جب تک اردو سوکھی روٹی کھانے والے یعنی کہ مدرسے والے زندہ رہیں گے تب تک اردو کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔'