کیا آپ جانتے ہیں ریاست بہار کے ضلع ارریہ کا ایک ایسا گاؤں جو چاروں طرف پانی سے گھرا ہوا ہے، جزیرہ کی شکل لئے ہوئے اس گاؤں کو لوگ انڈمان نکوبار کی شکل میں بھی جانتے ہیں.
جس طرح برٹش حکومت میں خطرناک جرائم پیشہ افراد کو کالا پانی کی سزا کے لئے انڈمان نکوبار بھیج دیا جاتا تھا ویسی ہی سزا آزاد ملک کے 73 سال بعد بھی اس گاؤں کے لوگ کاٹ رہے ہیں جہاں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے اور جو آج بھی بھارت کی ترقیاتی گاؤں میں شامل نہیں ہو سکا ہے.
یہ گاؤں ارریہ شہر سے 10 کیلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور قریب میں جوکی ھاٹ اسمبلی حلقہ بھی ہے، اسکو رمرائی گاؤں کے نام سے جانا جاتا ہے.
اس گاؤں کی آبادی تقریباً دو ہزار گھروں پر مشتمل ہے، رمرائی گاؤں کے تینوں طرف بکرا ندی ہے اور ایک طرف گاؤں کی آبادی ہے، مگر آزادی کے 73 سال گزر جانے کے بعد بھی اس ندی اور گاؤں کے درمیان ایک عدد پل نہیں بن سکا۔
اس گاؤں کی خستہ حالی کا یہ عالم ہے کہ یہاں 90 فیصد ناخواندگی ہے، علاج کے لئے کوئی ہسپتال نہیں ہے، سوچھتا مہم کے تحت کوئی بیت الخلاء نہیں ہے، رسوئی کیلئے آج بھی لوگ درخت کے پتے اور لکڑیاں ایندھن کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
یہی نہیں اس علاقے کے لوگ سڑک تک سے محروم ہیں، سال کے چھ مہینہ گاؤں کے لوگ بکرا ندی کے اوپر سے چچری کا پل بنا کر آمد و رفت کرتے ہیں جبکہ برسات اور سیلاب کے دنوں میں صرف یہی ایک کشتی انکا سہارا ہوتی ہے.
گاؤں کے لوگ بتاتے ہیں کہ ہسپتال اور سڑک نہیں رہنے کی وجہ سے اچانک کسی کا بیمار پڑنا گاؤں کے تمام لوگوں کو مشکل میں ڈال دیتا ہے، سہولیات کی عدم دستیابی کے سبب دوسرے گاؤں کے لوگ یہاں اپنے بچوں خصوصاً بچیوں کا رشتہ کرنے سے منع کر دیتے ہیں، شادی بیاہ مستقل ایک مسئلہ بنا ہوا ہے، جب دولہا دلہن کو ندی پار کرایا جاتا ہے تو وہ بھی ایک الگ نظارہ پیش کرتا ہے.
وزیراعظم سے لیکر وزیر اعلیٰ اور مقامی ایم پی سے لیکر ایم ایل اے تک جس اسمارٹ گاؤں کو بنانے کا ڈھول پیٹ رہے ہیں اس کا یہ ایک نمونہ ہے. بد سے بدتر زندگی گزار رہے علاقے کے لوگوں نے بتایا کہ انہیں ہمیشہ رہنماوں کے ذریعہ ٹھگنے کا کام کیا گیا ہے، جب الیکشن کا موسم آتا ہے تو لیڈران پل اور سڑک بنانے کا وعدہ کرکے چلے جاتے ہیں مگر پھر پانچ سال تک نہیں دکھائی دیتے۔