گیا:بہار کے ضلع گیا کے علماء کرام بھی ہندوستان کی تحریک آزادی میں شامل رہے ۔ان میں ایک بڑا نام مولانا ابوالمحاسن سجاد رحمت اللہ علیہ کا بھی ہے۔ مولانا سجاد علیہ الرحمہ تحریک آزادی کے دوران جیل کی صعوبتوں کو بھی برداشت کیا۔گیا کے علماء کہتے ہیں کہ مولانا سجاد علیہ الرحمہ کی موت کی وجہ جیل کی صعوبتیں ہی ہیں۔کیونکہ جب وہ جیل میں تھے تبھی ان کی طبیعت سخت علیل ہو گئی اور وہ برسوں بیمار رہے۔
حالانکہ ان کا انتقال جیل سے چھوٹنے کے بعد سنہ 1940 میں ہوا ، مولانا سجاد بہار شریف کے موضوع پنستہ میں ایک دینی گھرانے میں سنہ 1879 میں پیدا ہوئے۔بہار شریف جس کا ہیڈ کوارٹر اس وقت ضلع گیا ہی تھا ۔ مولانا علیہ الرحمہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد گیا میں ہی مقیم ہو گئے۔ تحریک آزادی کے دوران کئی علماء جنہیں انگریزی حکومت نے شہید کیا وہ مولانا علیہ رحمہ کے دوستوں اور قریبیوں میں تھے۔
مولانا علیہ الرحمہ تحریک آزادی کے دوران ملی و قومی کاموں سے بھی وابستہ رہے۔اس وقت سب سے بڑی جماعت جو آزادی کی جنگ لڑ رہی تھی۔ وہ کانگرس تھی اور کانگریس کے ساتھ اس وقت کے جو رہنما تھے جیسے راجیندر پرساد ، مولانا مظہر الحق ،شری کرشن بابو ،انوگرہ نارائن کے ساتھ مل کر جو بھی تحریک ہوئی۔جیسے کویٹ انڈیا موومنٹ ہو یا ڈنڈی مارچ ہو تمام تحریک کو آگے بڑھانے میں مولانا سجاد نے بہت اہم کردار ادا کیا۔
مولانا سجاد علیہ الرحمہ کی ملی نقطہ نظر سے بھی ایک بڑی شخصیت ہے ،ان کا ایک بڑا کارنامہ امارت شریعہ اور شہر گیا میں واقع مدرسہ انوار العلوم بھی ہے۔مولانا علیہ رحمہ کے قائم کردہ مدرسہ انوار العلوم کے استاد مولانا منور ندوی کہتے ہیں سجاد رحمت اللہ علیہ کی تحریک آزادی میں جو حصہ رہا ہے۔ اس کی ایک ادنی سی مثال یہ ہے کہ پٹنہ ضلع میں ایک جگہ باڑھ ہے۔وہاں پر مولانا علیہ الرحمہ نے انگریزی حکومت کے خلاف چلائی جارہی تحریک ' عدم تعاون تحریک ' کے تحت وہ تقریر کرتے ہوئے انگریزوں کے خلاف مسلمانوں کو متحد کررہے تھے ، جس پر انگریزوں نے اُنہیں گرفتار کر قید خانے میں ڈال دیا اور اسی قید خانے میں قید رہنے کے درمیان میں وہ بیمار ہو گئے تھے ، اسی سبب سے انکا انتقال بھی ہوا۔