ضلع کے گنگا گھاٹ سے لاشوں سے ملنے کا سلسلہ تھم نہیں رہا ہے۔ ضلع میں ابھی تین روز قبل ہی چوسا بلاک کے تحت واقع مہادیوا گھاٹ پر 71 سے زائد لاشیں ملی تھیں۔ آج بکسر شہر کے ناتھ بابا گھاٹ پر 8 لاشیں پڑی ہونے کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ ای ٹی وی بھارت کی پڑتال میں یہ معاملہ سامنے آیا ہے۔ بتا دیں کہ اترپردیش کے گہمر غازی پور سے بھی لاشیں ملی تھیں۔
ناتھ بابا گھاٹ سے ملی ہیں لاشیں
ای ٹی وی بھارت کی پڑتال میں بکسر شہر کے ناتھ بابا گھاٹ کی تصاویر سامنے آئی ہیں، جو پریشان کرنے والی ہیں۔ تو ہم اسے نہیں دکھا سکتے۔ یہاں پڑی لاشوں کی حالت یہ ہے کہ گھاٹ کے قریب آوارہ کتے ان لاشوں کو نوچ رہے ہیں۔ ناتھ بابا گھاٹ سے ملنے والی لاشوں نے ایک بار پھر یہ سوال پیدا کردیا ہے کہ آخر گزشتہ 4 دنوں سے ندی میں اتنی لاشیںاچانک کہاں سے آرہی ہیں۔
اس سے قبل 10 مئی کو بکسر ضلع کے مہدیوا گنگا گھاٹ سے 71 لاشیں ملنے کے بعد، بہار کے ڈی جی پی سے لیکر تمام عہدیداروں نے اتر پردیش کی سرحد سے لاشوں کے آنے کا دعویٰ کیا ہے۔ جبکہ اتر پردیش کے انتظامی عہدے دار اس بات سے انکار کر رہے ہیں۔ ایسے میں سوال ہے کہ اگر لاشیں یوپی سے نہیں آ رہی ہیں، تو وہ کہاں سے بہہ کر آئیں۔
وہیں ریاستی حکومت کی ہدایت پر سرحد پر واقع گنگا میں بڑا جال لگایا گیا۔ جس کے بعد وہاں 6 لاشیں اور پھنسی ہوئی ملی۔ جس کے بعد یہ کہا جارہا ہے کہ یہ ثابت ہوگیا ہے کہ یوپی سے بہہ کر ہی بہار لاشیں آرہی ہیں۔ بکسر کے علاوہ پٹنہ سٹی کے گلابی گھاٹ سے بھی دو افراد کی لاشیں ملی ہیں۔ اس میں ایک بچے کی اور نوجوان کی لاش شامل ہیں۔
بکسر ڈی ایم کے دعوے جھوٹے!
۔ مہا جال لگانے کے بعد گنگا میں کہاں سے آئی لاشیں؟
۔ کیا یہ لاشیں بکسر سے ہی گنگا میں بہائی گئیں؟
۔ گنگا میں نگرانی کے بعد بھی کیسے ملی لاشیں؟
۔ ضلع انتظامیہ دوسری ریاست پر الزام عائد کرکے پیچھا چھڑانا چاہ رہا ہے؟
۔ پہلے 48 لاشوں کی بھی وضاحت نہیں کر رہے تھے، پھر 71 کا پوسٹ مارٹم کرایا گیا، ناتھ بابا گھاٹ پر ملی لاشوں کا انتظامیہ کے پاس کیا جواب ہے؟
بہار نے سخت اعتراضات کا اظہار کیا
محکمہ داخلہ کے ایڈیشنل پرنسپل سکریٹری چیتنیا پرساد نے لاشوں کے ملنے کے معاملے کو لیکر 12 مئی کو بتایا کہ بہار کے ایڈیشنل چیف سکریٹری، بہار کے ڈی جی پی اور بکسر کے ڈی ایم اور دیگر عہدیداروں نے یوپی حکومت اور عہدیداروں سے بات چیت کی۔ اس دوران گنگا ندی میں لاشوں کے بہانے کو لیکر بہار کی طرف سے سخت اعتراضات کا اظہار کیے جانے کی بات انہوں نے کہی۔
انہوں نے بتایا تھا کہ یوپی حکومت نے بہار حکومت کو یقین دلایا ہے کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔ اب آگے جو بھی کارروائی کرنی ہے، وہ اترپردیش حکومت کو کرنا ہے۔ وہیں بہار کے ڈی جی پی سنجیو کمار سنگھل نے بتایا تھا کہ جتنی بھی لاشیں مل رہی ہیں ان سبھی کا ڈی این اے کے سیمپل لیے گیے ہیں۔ شناخت کے لیے سیمپل کا ملان اہل خانہ سے کرایا جائے گا۔
کبھی کاشی، شراب کی ڈیلیوری اور اب لاشوں کی ڈیلیوری کو لیکر موجوع بحث
بکسر جسے منی کاشی بھی کہا جاتا ہے اور یہ رشی وشومیترا کا مقدس شہر ہے۔ ان دنوں پورے بھارت میں 1764 کی بکسر جنگ یا پھر 1539 میں ہوئی چوسا کی لڑائی کو لیکر زیر بحث نہیں ہے، بلکہ گنگا ندی میں ملی سینکڑوں لاشوں کو لیکر موضوع بحث ہے۔
لیکن کچھ دن پہلے 2016 میں بہار میں شراب پر پابندی لگائے جانے کے بعد بکسر ضلع ہی نہیں شاہ آباد کے اسمگلروں کے لیے گنگا ندی سودمند ثابت ہو رہی تھی۔ رات کے اندھیرے کی بات کون کہے، دن میں بھی ضلع کے چوسا، بکسر، سمری اور دیگر بلاکس میں سینکڑوں شراب اسمگلر، یوپی کے غازی پور، گہمر، محمد پور، بارے وغیرہ سے کچھ سرکاری ملازمین سے تعلقات کی بنا پر شراب کی بڑی کھیپ بہار لیکر آتے تھے۔