اردو

urdu

ETV Bharat / state

Mirza Ghalib College گیا میں مرزا غالب کالج کے سنیئر استاد کو کمیٹی نے معطل کردیا

ضلع گیا میں واقع اقلیتی ادارہ مرزاغالب کالج کی ' گورننگ باڈی ' نے اپنے ایک سنیئر پروفیسر کو معطل کردیا ہے ، ان پر کمیٹی کا الزام ہے کہ سنیئر پروفیسر نے کالج اور اسکی کمیٹی کے افراد کے خلاف عوامی رابطہ ذرائع ' سوشل میڈیا ' پر نازیبا تبصرے کیے ہیں ، کمیٹی اور کالج کی شبیہ کو خراب کرنے کی کوشش کی ہے حالانکہ کمیٹی کے ذریعے معطل کیے گئے پروفیسر عبدالقادر نے کہاکہ وہ اپنے موقف پر قائم ہیں اور انہوں نے جو باتیں لکھی ہیں اسکی صداقت کو وہ ثابت کریں گے۔

Breaking News

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Nov 4, 2023, 6:45 PM IST

گیا میں مرزا غالب کالج کے سنیئر استاد کو کمیٹی نے معطل کردیا

گیا: ریاست بہار میں چند اقلیتی ادارے ہی ہیں جن میں ایک مگدھ کمشنری کا واحد اقلیتی کالج ' مرزا غالب کالج 'ہے جوکہ شہر گیا میں واقع ہے ۔ کالج اپنی معیاری تعلیم اور دیگر بہتر انتظامات کے ساتھ ساتھ کئی معاملوں کو لیکر تنازعہ کے تعلق سے بھی سرخیوں میں رہاہے ، تازہ معاملہ یہاں کے ایک سنیئر استاد اور گورننگ باڈی کے درمیان پیدا ہونے والے تنازعہ کی صورتحال کو لیکر پیش آیا ہے ، سنیئر پروفیسر کو گورننگ باڈی نے معطل کردیا ہے ۔ گورننگ باڈی کے عہددران بالخصوص صدر ایڈوکیٹ مسعود منظر ، نائب صدر ایڈوکیٹ شاہ زماں انور کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر کالج کے سکریٹری اور انچارج پروفیسر کے خلاف کالج کےہی شعبہ اکنامکس کے سنیئر استاد پروفیسر عبدالقادر نے کردار کشی کی ہے اور کئی طرح کے تبصرے کیے ہیں ، آج گورننگ باڈی کے عہددران و اراکین نے اسکی اطلاع باضابطہ پریس کانفرنس کرکے دی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ پروفیسر عبدالقادر کو گورننگ باڈی نے معطل کردیا ہے اور انکے خلاف محکمہ جاتی کاروائی بھی ہورہی ہے۔

پریس کانفرنس میں صدر مسعود منظر ونائب صدر شاہ زماں انورکے علاوہ سکریٹری شبیع عارفین شمسی ، پروفیسر انچارج ڈاکٹر شجاعت علی خان اور دیگر عہدران و ممبران جن میں پروفیسر سرفراز خان ، انعام الحسن، فیروز عالم وغیرہ موجود تھے ۔ صدر، نائب صدر ، سکریٹری اور پروفیسر انچارج نے پروفیسر عبدالقادر پر کئی الزامات عائد کرتے ہوئے کہاکہ کالج کے وقار اور اسکی تعمیر وترقی سے کھلواڑ کرنے کی اجازت کسی کو نہیں ہے، صدر مسعود منظر نے الزامات عائد کرتے ہوئے کہا کہ شعبہ معاشیات کے استاد پروفیسر عبدالقادر کے کئی نام ہیں جنکے لیڈر ہیڈ پر محمد عبدالقادر ہے لیکن انکے ذریعے فراہم کی گئی انکی خود کی تصدیق شدہ ایم اے کی مارک شیٹ پر انکا نام محمد عبدالقادری ہے ، صدر مسعود منظر نے کہاکہ نام کو بدلنے کے ساتھ ساتھ عبدالقادر اپنا پیشہ بھی بدلتے رہے ہیں ، انہوں نے کہاکہ پروفیسر صاحب نے ایک اخبار میں صحافی بنکر دوسری تنخواہ بھی لینے لگے ، اس کا کالج کی مجلس انتظامیہ یعنی گورننگ باڈی کو پتہ ہی نہیں چلا ، کالج کے پے رول پر رہتے ہوئے کسی نجی میڈیا کمپنی کے لیے فل ٹائم رپورٹنگ میں لگے رہے۔

ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے صدر مسعود منظر نے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ جب تک مرزا غالب کالج رہے گا تب تک یہ سرخیوں میں اپنی پڑھائی کے لیے اپنے نظم و نسق ،نمایاں رزلٹ کے لیے سرخیوں میں رہے گا ، جہاں تک تنازعہ کا معاملہ ہے تو باقی یہ سب روز کا معمول ہے ، چاہے وہ کوئی ہمارے عزت ماب اساتذہ کرام ہوں یا غیر تدریسی ملازمین ہوں یا اسٹوڈنٹ ہوں ، کوئی بھی ادارے کے ڈسپلن کو توڑے گا یا غیر اخلاقی کام کرے گا تو ہم ان پر تادیبی کاروائی کریں گے۔انہوں نے اپنے سنئیر پروفیسر عبدالقادر کے خلاف کی گئی کاروائیوں پر کہا کہ وہ خود اس کے لیے ذمہ دار ہیں ، اُنہوں نے پروفیسر عبدالقادر کے نام کے تعلق سے بھی الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ اُنکے کئی نام ہیں اور انکے لیڈر ہیڈ اور سرٹیفکیٹ کے نام میں تضاد ہے کیونکہ کہیں وہ عبدالقادر لکھتے ہیں تو کہیں پروفیسر محمد عبدالقادر لکھتے ہیں۔

اس الزام پر ای ٹی وی بھارت نے سوال کیا کہ آخر نوکری کے 30 سالوں بعد کالج کو یہ کیسے یاد آیا کہ عبدالقادر، قادری یا محمد قادر ہیں ؟ پہلے کیوں نہیں اس معاملے پر کاروائی ہوئی ؟ مسعود منظر قریب 22 برسوں سے کمیٹی میں کسی نا کسی عہدے پر گورننگ باڈی میں رہے ہیں ،آخر کسی تنازعہ کے بعد ہی کالج کو اس طرح کی چزیں یاد کیوں آتی ہیں ؟ جس پر اُنہوں نے جواب میں کہا کہ یہ معاملہ اُنکے علم میں تب آیا جب کاغذات کی جانچ کی گئی ، جس وقت وہ بحال ہوئے تھے اس وقت موجودہ کمیٹی نہیں تھی، ہم اسوقت صدارت کی کرسی پر نہیں تھے ، صدر مسعود منظرسے سوال کیا گیا کہ ابھی کس چیز کو لے کر سنیئر پروفیسر کے خلاف کاروائی ہوئی ہے اور پروفیسر نے کئی طرح کے سنگین الزام پروفیسر انچارج اور سکریٹری کے حوالے سے لگایا ہے جس پر اُنہوں نے کہا کہ سنگین الزام نہیں بلکہ بے بنیاد الزام وہ لگا رہے ہیں، جس کی کوئی بنیاد نہیں ہے، میں کہتا ہوں کہ اگر اس طرح کے کوئی بات تھی تو وہ کالج کی جی بی ' گورننگ باڈی ' کو تحریری شکایت دیتے ، کمیٹی اسکی کی جانچ کرتی ناکہ آپ عوامی سطح ' سوشل میڈیا ' پر بغیر کسی ثبوت کے کسی کی کردار کشی کریں ، کالج کے خلاف کوئی حرکت کرے گا تو اسکے خلاف کاروائی ہوگی۔

معطلی کے ساتھ درج ہوا ہے مقدمہ

صدر مسعود منظر نے کہا کہ ان سب چیزوں کے علاوہ گزشتہ دنوں وائس چانسلر مگدھ یونیورسٹی کی کالج میں تشریف آوری پر استقبال کے لیے کالج کے سبھی لوگ جمع ہوئے لیکن پروفیسر عبدالقادر نے مہمان وائس چانسلر کا خیر مقدم کرنے سے نہ صرف انکار کیا بلکہ کالج میں ان کی آمد کا سرے سے بائیکاٹ بھی کیا، ان تمام باتوں کو پیش نظر گورنمنٹ باڈی نے انہیں سروس سے معطل کر ان پر تادیبی کاروائی بھی شروع کی ہے ۔ معطلی کے بعد غصے میں آ کر پروفیسر عبدالقادر نے کالج کے سیکرٹری اور پروفیسر انچارج کے خلاف سوشل میڈیا پر بے بنیاد اور غیر اخلاقی باتیں پھیلانا شروع کر دی جس کی خبر حکومت بہار کی سائبر کرائم ڈیپارٹمنٹ نے لیا ہے اور ان کے خلاف اس سلسلے میں پہلی انفارمیشن رپورٹ یعنی ایف آئی آر بھی درج ہو چکی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ان کو ہتک عزت کی تین نوٹس بھی جاری کی گئی ہیں۔

پروفیسر پر خواتین پر نازیبا تبصرے کا بھی لگا ہے الزام

پریس کانفرنس کے دوران گورننگ باڈی کے عہدے داروں نے کہا کہ پروفیسر عبد القادرنے اپنے شعبے کو بتولہ بازی کا اڈہ بنا رکھا تھا جہاں ان کی موجودگی و حوصلہ افزائی میں خواتین پر نازیبا تبصرے کیے جاتے تھے اور اس بات کی نوشتہ شکایت بھی گورنمنٹ باڈی تک پہنچی ہے، پریس کانفرنس کر رہے عہدے داروں سے جب سوال کیا گیا کہ آخر جب وہ خواتین کے خلاف نازیبا تبصرے کرتے تھے اور یہ شکایت ان تک پہنچی تو پھر اس معاملے میں کاروائی پہلے کیوں نہیں ہوئی جس کے جواب میں کہا گیا کہ دراصل اس معاملے کو لے کر سکریٹری نے تین رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی جس کی جانچ ہو رہی تھی۔ سکریٹری نے کہا کہ رپورٹ مل چکی ہے ،آگے اس پر کاروائی شروع ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں: Principal Secretary in Gaya محکمۂ تعلیم کے پرنسپل سکریٹری نے اساتذہ اور افسران کو پھٹکار لگائی

پروفیسر عبدالقادر کا ہے یہ موقف

پروفیسر عبدالقادر نے اپنے جواب میں کہاکہ جہاں تک اخبار میں کام کرنے کی بات ہے تو دیر سے صحیح کمیٹی کی نیند کھلی ہے ، پہلے وہ اس بات کی تحقیق کرلیں کہ میں وہاں کام کرتا تھا یا پھر آرٹیکل لکھتے تھے ، ایک یہ بھی کہ صحافت بھی تخلیقی سرگرمی کا حصہ ہے اور ٹیچنگ بھی تخلیقی پارٹ ہے اور وہاں 'اخبار ' میں نوکری نہیں کی ہے ۔ کئی نام ہونے کے سوال پر کہاکہ گورننگ باڈی کو دیکھنا چاہیے کہ ہماری بحالی کس نام پر ہوئی ہے اور جو سروس بک پر نام ہے وہی ہمارا نام ہوگا ۔ جبکہ انہوں نےاپنی معطلی کے سوال پر کہاکہ انہوں نے استعفی پیش کیا ہے جہاں تک 20 اکتوبر کو معطل کرنے کا سوال ہے تو پھر ہم نے جو 23 اکتوبر کو واٹس ایپ پر بھیجا ہے تو اسکے جواب میں کیوں نہیں بتایا گیا کہ انہیں معطل کردیا گیا ہے جبکہ وائس چانسلر کے پروگرام میں شریک نہیں ہونے کے سوال پر انہوں نےکہا اسوقت ہمارا کلاس تھا جبکہ میں نے اس حوالے سے پوچھا تھا کہ کیا کلاس معطل کرکے شرکت کریں جسکے جواب میں کہا گیا تھا کہ وہ کلاس معطل کرنے کی اجازت نہیں دیں گے تو پھر صورت میں انکے پروگرام میں شامل ہونے کا جواز نہیں ہے۔

For All Latest Updates

ABOUT THE AUTHOR

...view details