سمستی پور کے شمبھو پٹی پنچایت میں 21 جولائی سے 25 جولائی تک کوریڈی معاشرے کے لوگوں کو انصاف دلانے کے لیے مہاپنچایت لگی ہوئی ہے۔
مہا پنچایت میں ریاست کے مختلف اضلاع سے تقریباً 30 ہزار لوگ حصہ لیتے ہیں۔ پنچایت ملزم کو اپنے قانون اور انصاف کے تحت سزا سناتی ہے۔
بہار کا ایک ایسا طبقہ جس کی اپنی ہی عدالت ہے آٹھ لاکھ سے زائد آبادی والے اس معاشرے کا یہ رواج مغل حکمرانوں کے دور سے ہی جاری ہے اور اس بار 25 برسوں کے بعد مہاپنچایت کا اہتمام کیا گیا۔
طویل وقفے کے بعد پنچایت قائم کر کے خانہ بدوشوں کو انصاف کیا جا رہا ہے جس کے فیصلے کو کوئی عدالت خارج نہیں کر سکتی ہے۔
گوردھن عدالت کے ساتھ کاسما اور مرداہا عدالت بھی اس معاشرے میں لوگوں کو انصاف دیتی ہے۔
اس طبقے کے لوگ اپنے مسائل کو پولیس یا عدالت کے پاس نہیں لے جاتے ہیں۔ ان کی عدالت کے مرکزی حصے میں انصاف کی علامت کے طور پر ایک کھمبا نصب کیا گیا ہے اور اس کے اطراف گوردھن عدالت کے 32، کاسما اور مرداہا عدالت کے آٹھ آٹھ ججز معاملے کی سماعت کرتے ہیں۔
عدالت رسم و رواج اور قانون کی بنیاد پر معاملے کی سماعت کرتی ہے اور ملزمین کو سزا کا حکم سناتی ہے۔ کوریڈی معاشرے میں ان کی عدالت کے ساتھ پولیس اور جج بھی ہوتے ہیں۔
یہ عدالت ملزمین کے منہ پر سیاہی لگا کر کھمبے سے باندھ دیتی ہے اور اگر کسی جرم میں خاتون مجرم ہوتو اس کے بال کو کاٹ دیا جاتا ہے۔
کوریڈی معاشرے کے صدر کمل کوریڈی کا کہنا ہے کہ 'یہ ہمارا رواج ہے اور ہم بھارتی قوانین کی خلاف ورزی نہیں کرتے ہیں۔ ہم اپنے مسئلے کو خود حل کر لیتے ہیں۔'
کوریڈی معاشرے کے صدر کا کہنا تھا کہ وہ ملزمین کو سخت سزا نہیں دیتے صرف جسمانی طور پر انہیں سزا دی جاتی ہے۔ اس سے لوگوں میں سزا کا خوف برقرار رہتا ہے۔'
پولیس کا کہنا ہے کہ 'انہیں ابھی تک اس معاملے میں کوئی شکایت نہیں آئی ہے۔ اگر کوئی شکایت کرتا ہے تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔'