گیا:گیا ضلع میں واقع بہار کی بڑی یونیورسیٹیوں میں ایک 'مگدھ یونیورسٹی' کے شعبہ فلسفہ میں پہلی بار ایک مسلم پروفیسر ڈاکٹر جاوید انجم کو صدر شعبہ بنایا گیا ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے کہ مگدھ یونیورسٹی میں کوئی مسلم پروفیسر پہلے صدر شعبہ مقرر نہیں ہوا ہے بلکہ اردو خے علاوہ کئی شعبوں کے صدر مسلم پروفیسر رہے ہیں۔ان کی خدمات کا اعتراف یونیورسٹی اور معاشرہ کرتا ہے۔
تاہم پروفیسر جاوید انجم کی تقرری پر مبارکبادی پیش کیے جانے کا سلسلہ اسلیے بھی زیادہ طویل اور موضوع بحث ہے کیونکہ بہار میں ایک روایت ہوچکی تھی کہ مسلم طلبا آنرس میں فلسفہ مضمون شامل نہیں کرتے تھے ۔اس کی کئی وجہیں ہیں تاہم اسکے پیچھے سب بڑا ترک یہ دیا جاتا تھا کہ چونکہ فلسفہ میں وید اپنیشد پڑھایا جاتا ہے اور سنسکرت ہندی کا استعمال زیادہ ہے۔ اس کی وجہ سے مسلم طلبا فلسفہ سبجیکٹ نہیں رکھتے تھے۔ اس لئے اس پر گفتگو زیادہ ہورپی ہے ۔ حالانکہ پروفیسر جاوید انجم کا ماننا ہے کہ کسی بھی مضمون یا مذہبی کتابوں کا علم حاصل کرنا اچھی بات ہے اور اس سے آپ کی معلومات میں اضافہ بھی ہوگا۔ حالانکہ فلسفہ میں اسلام بدھیسٹ جین عیسائی مذہب کے تعلق سے بھی پڑھایا جاتاہے ۔ یہ اور بات ہے کہ مسلمان اپنی کتاب کو بھی نہیں پڑھتے ہیں ۔
ای ٹی وی بھارت سے خصوصی بات چیت کے دوران پروفیسر جاوید انجم نے اس پر تفصیلی روشنی ڈالی اور کہاکہ اب کچھ باقاعدگی سے ہر سیشن میں مسلم طلباء بھی آنرس ان فلسفہ کریں اسکی کوشش ہوئی ہے ، روایت اور افواہوں کو نظر انداز کریں کہ کسی مذہب کے فلسفہ کو نہیں پڑھنا ہے ، آپ پڑھیں گے تبھی فلسفیانہ اور تاریخی معلومات سے بہرور ہوں گے ۔ حالانکہ اب ایک اور اچھی بات یہ بھی ہے کہ بہار میں مسلم طلباء آنرس ان فلسفہ سے آراستہ ہو رہے ہیں۔بلکہ ہمارا ماننا ہے کہ اچھا انسان نہیں ہوسکتا جب تک کہ فلسفہ نہیں ہو ، ہماری ذمہ داری ہے کہ طلباء کو فلسفہ کی طرف مائل کریں ، طلباءذہن سے اس کو بھی نکالیں کہ آنرس ان فلسفہ میں مستقبل اور ذریعہ معاش نہیں ہے بلکہ ہمارا ماننا ہے کہ آج یہ ایک معیار ہوگیا ہے کہ ہمیں لٹریٹ ہونا نا کہ ایجوکیٹیٹ ہونا ہے ۔ڈگری حاصل ہوجائے گی لیکن صلاحیت پڑھنے اور مطالعہ سے پیدا ہوگی ، اسلئے طلباء خوب پڑھیں اور اپنے مطالعہ میں کتابوں کو رکھیں خواہ وہ کسی بھی شعبہ کے ہوں۔