گیا:بہار میں سابق ایم پی اور ڈی ایم قتل معاملے میں سزا یافتہ آنند موہن کی رہائی پر سیاسی بیان بازی بھی شروع ہوگئی ہے۔ آنند موہن کی رہائی سے پہلے نتیش کابینہ نے جیل مینول ' ایکٹ ' میں تبدیلی کردیا تھا اور اس کے بعدان کی رہائی کے لیے نوٹیفکیشن جاری کردیاگیا ہے۔ آنند موہن کی رہائی کے ساتھ 26 اور سزایافتہ قیدیوں کی رہائی ہوئی ہے جس میں 5مسلم سزا یافتہ قیدی ہیں جوگزشتہ 14برسوں یا اس سے زیادہ مدت سے جیل میں بند تھے۔ بہار حکومت نے رہائی کا جونوٹیفکشن جاری کیا ہے اس میں پہلے نمبر پر ارریہ جیل میں بند دستگیر خان ابن امانت خان عمر 74برس ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق دستگیرخان کوجون 2006 کو سزاملی تھی ان کے علاوہ علاوالدین انصاری ابن رحمان انصاری عمر 42برس ' بھاگلپور جیل میں بند ' محمد حلیم انصاری ابن رحمان انصاری عمر 37برس ' بھاگلپور جیل ' اختر انصاری ابن محمد انصاری عمر 52برس ' اسپیشل جیل بھاگلپور ' محمدقطب الدین انصاری ابن رحمان انصاری عمر 36برس ' بھاگلپورجیل ' کو رہاکیا گیا ہے۔
پانچ مسلموں میں تین قیدی علاوالدین انصاری، حلیم انصاری اور قطب الدین انصاری حقیقی بھائی ہیں۔ حالانکہ ان کے علاوہ 8قیدیوں کا تعلق یادو برادری سے ہے جنہیں رہا کیا گیا ہے۔ ان میں سب سے زیادہ آنند موہن کی رہائی پر سوال اٹھ رہے ہیں۔ اس حوالے سے اترپردیش کی سابق وزیر اعلیٰ مایاوتی نے بھی آنند موہن کی رہائی کی مخالفت کی ہے اور انہوں نے ٹوئٹ کرکےکہاہے کہ دلت افسر کے قاتل کو رہائی کے لیے قانون میں تبدیلی کردی گئی ہے بہار حکومت کو اس پر غور کرنا چاہیے، جب کہ بہار کے سابق ڈپٹی سی ایم اور بی جے پی رہنما سشیل کمار مودی نے بھی سوال کھڑا کیے ہیں اور کہاکہ جس نتیش کمار نے سرکاری اہلکاروں کے قتل کے ملزم کو عمر قید کی سزا کو ہمیشہ کے لیے عمر قید قرار دیا تھا اسکو تبدیل کردیا گیا ہے تاکہ بدمعاشوں کے ذریعے 2024کے الیکشن میں فائدہ اٹھایا جاسکے'۔