پٹنہ:ارد وڈائرکٹوریٹ، محکمہ کابینہ سیکریٹریٹ، بہار کے زیر اہتمام اردو کے مشہور و معروف شاعر، محقق و ادیب شوق نیموی اور ممتاز شاعر کیف عظیم آبادی کی زبان و ادب کی خدمات کے اعتراف میں بہار ریاستی آرکائیو ڈائرکٹوریٹ (ابھیلیکھ بھون) کے احاطے میں واقع کانفرنس ہال میں مشترکہ یادگاری تقریبات کا انعقاد ہوا۔ تقریب دو اجلاس پر مشتمل تھا۔ پہلے اجلاس میں شوق نیموی کی حیات و خدمات پر اردو زبان و ادب کی معروف شخصیات نے مقالات پڑھے۔ شوق نیموی یادگاری تقریب کی صدارت پروفیسر منظر اعجاز، سابق صدر شعبہ اردو، اے اینکالج، پٹنہ نے کی۔ جبکہ دوسرے اجلاس کے تحت منعقد کیف عظیم آبادی یادگاری تقریب کی صدرات پروفیسر اعجاز علی ارشد، سابق وائس چانسلر، مولانا مظہر الحق عربی و فارسی یونیورسٹی ،پٹنہ نے کی۔
تقریب کا آغاز اردو ڈائرکٹوریٹ کے ڈائرکٹر احمد محمود اور اسٹیج پر موجود معزز مہمان شرکاءکے ہاتھوں شمع افروزی کے ذریعہ ہوا۔ شوق نیموی یادگاری تقریب میں مقالہ خواں کی حیثیت سے ڈاکٹر احمد کفیل، شعبہ اردو، ساؤتھ بہار سینٹرل یونیورسٹی، گیا نے اپنا قیمتی اور جامع مقالہ پیش کیا۔ انہوں نے اپنے مقالے میں کہا کہ ’’شوق نیموی نے سبھی اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی لیکن انہوں نے اردو مثنوی نگاری میں ایک خاص پہچان بنائی۔ شوق نیموی کی شاعری ہندوستان کے تکثیری سماج میں ہم آہنگی پیدا کرنے والی شاعری تھی۔ مذہب کے بجائے انہوں نے آدمیت اور انسانیت کا پیغام اپنی شاعری کے ذریعہ عام کیا۔‘‘ ڈاکٹر نسیم احمد نسیم، معروف ناقد و ادیب نے”شوق نیموی کی غزل گوئی “کے عنوان سے اپنا قیمتی اور معلوماتی مقالہ پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’شوق نیموی کی شخصیت نابغہ روزگار تھی۔ وہ بیک وقت فقہ، حدیث، علم کلام اور شاعری پر پوری قدرت اور دسترس رکھتے تھے۔ان کی شاعری میں عظیم آباد، لکھنو اور دبستان دہلی تینوں کی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔‘‘
پروفیسر آفتاب احمد آفاقی، صدر شعبہ اردو، بنارس ہندو یونیورسٹی، وارانسی نے اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ شوق نیموی پوری دنیا میں زبان دان کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔ شوق نیموی یادگاری تقریب میں صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے پروفیسر منظر اعجاز، سابق صدر شعبہ اردو، اے این کالج، پٹنہ نے پڑھے گئے تینوں مقالوں پر تبصرہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’تینوں مقالے نہایت ہی جامع اور معلومات افزا ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’شوق نیموی کی مثنوی ’نغمہ زار‘ اور ’سوز و گداز‘ علمی دانش گاہوں میں داخلِ نصاب ہیں۔ شوق نیموی کے رباعیات اور قطعات بھی بحث کا موضوع بن سکتے ہیں۔‘‘ منظر اعجاز نے کہا کہ شوق نیموی کا بنیادی موضوع اور میلان تصوف ہے۔ ان کی غزلیہ شاعری متصوفانہ نکات پر مشتمل ہے۔