کسانوں کی ایک بڑی تعداد دیگر کاشتکاری کے مقابلے اب مونگ پھلی کی کھیتی کر زندگی بسر کر رہے ہیں، چونکہ کاروبار کے لحاظ سے مونگ پھلی کی کھیتی میں کم لاگت، زیادہ منافع اور کم وقت کا صرفہ ہے۔
علاوہ ازیں ریاست و بیرون ریاست سے بڑے۔ بڑے تاجر و بڑی کمپنیوں کے مالکان مونگ پھلی کی خریداری کے لئے ارریہ پہنچتے ہیں۔
ذائقہ کے لحاظ سے مونگ پھلی کا استعمال کھانوں میں الگ الگ طرح سے کیا جاتا ہے۔
ارریہ میں مونگ پھلی کھیتی کی بنیاد 1972 میں برما ملک سے آئے چند مہاجرین نے رکھی تھی، ان مہاجرین کو برما ملک میں ہو رہے ظلم و زیادتی سے بچا کر اس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے بھارت میں پناہ دی تھی۔
ان ہی مہاجرین میں 90 خاندان ارریہ کے فاربس گنج بلاک واقع مانک پور کے شبھنکر پور میں بسے تھے، جو آج بھی آباد ہیں اور بڑے پیمانے پر اس کاروبار کو فروغ دے رہے ہیں۔
مہاجرین نے بتایا کہ ہم لوگوں کو بسانے میں اس وقت جب ارریہ پورنیہ ضلع میں تھا کے اے ڈی ایم شبھنکر جھا نے اہم کردار ادا کیا تھا، انہیں کے نام پر یہ علاقہ شبھنکر پور رکھا گیا۔
مزے کی بات یہ ہے کہ کبھی بالو کا ڈھیر رہے اسی شبھنکر پور میں برما کے مہاجرین کی محنت و لگن سے آج فصل لہلہا رہی ہے، بالو سونا اگل رہا ہے، چاروں طرف ہریالی ہی ہریالی ہے۔
ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اب صرف ارریہ ہی نہیں بلکہ پورنیہ، سپول و کٹیہار کے ہزاروں کسان مونگ پھلی کی سیزن میں 80 ہزار سے زیادہ ایکڑ زمین میں مونگپھلی کی کھیتی کر رہے ہیں۔
ارریہ میں مونگ پھلی کی بڑے پیمانے پر ہو رہی کھیتی کے باوجود ایک بھی فیکٹری کا نہ ہونا حکومت کی عدم توجہی صاف جھلکتی ہے، علاوہ ازیں سرکاری خریداری کا بھی کوئی نظم نہیں ہے جس وجہ سے یہاں سے مونگپھلی دہلی، یوپی تک کے تاجر خریداری کے لئے پہنچتے ہیں۔
ضلع میں مونگ پھلی کھیتی کے فروغ کے لئے حکومتی سطح سے فیکٹریوں کا قیام عمل میں آئے تو یہاں کے ہزاروں بےروزگاروں کو روزگار بھی مہیا ہو تاکہ یہاں کے مزدور دوسری ریاست جانے پر مجبور نہ ہوں۔