بہار کے دارالحکومت پٹنہ سے قریب 70 کلومیٹر دور ایک چھوٹے سے گاؤں بسوک میں آزاد کشمیر کے آخری بادشاہ یوسف شاہ Yousuf Shah Chak چک دفن ہیں۔ مؤرخین بتاتے ہیں کہ بادشاہ یوسف شاہ چک کے علاوہ ان کی اہلیہ حبہ خاتون اور ان کی اولادیں بھی یہیں مدفون ہیں۔
ضلع نالندہ کے اسلام پور بلاک میں واقع بسوک گاؤں میں یوسف شاہ چک کی قبرستان کو معدوم ہونے کے خطرے کا سامنا ہے۔ قبرستان کی زمین پر تجاوزات کی مسلسل کوششیں ہو رہی ہیں۔ ایک بادشاہ کی یادیں وابستہ ہونے کے ساتھ وہ یہیں مدفون ہیں باوجود کے بہار حکومت اس علاقے کی ترقی و خوشحالی کے لئے ثابت قدم نہیں ہے جبکہ ریاست کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کا تعلق اسی ضلع سے ہے۔
مقامی لوگوں کے مطابق کشمیر کے بادشاہ علی شاہ کے انتقال کے بعد ان کے صاحبزادہ یوسف شاہ چک آزاد کشمیر کے آخری بادشاہ رہے تھے۔ یوسف شاہ چک کو مغل شہنشاہ اکبر نے قید کیا اور بعد میں بہار جلا وطن کر دیا گیا۔
بادشاہ یوسف شاہ چک جنہوں نے 1579 سے 1586 تک کشمیر پر حکمرانی کی اور آزاد کشمیر کے آخری مقامی حکمرانوں میں سے ایک تھے۔ آج بہار میں ان کی قبر کے ارد گرد کی زمین پر ناجائز قبضہ ہو گئے ہیں۔ بادشاہ کے آخری آرام گاہ کو بھی لوگوں سے خطرہ ہے۔ بہار کے نالندہ ضلع کے بسوک گاؤں میں جہاں یوسف شاہ کو دفن کیا گیا ہے اس یادگار تحفظ کے لیے قبرستان کے متولی" نگراں" یاسر شاہ چک خان نے حکومت کو دو سو سے زیادہ خط لکھے ہیں، لیکن تجاوزات کا سلسلہ جاری ہے۔
مقامی لوگ قبرستان کی زمین پر مکانات تعمیر کر چکے ہیں یا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
یوسف شاہ چک کی مختصر تاریخ
یوسف شاہ کو مغل شہنشاہ اکبر نے قید کیا اور بعد میں بہار بھیج دیا۔ مان سنگھ نے انہیں نالندہ ضلع کے اسلام پور بلاک میں واقع بسوک قلعہ میں قید رکھا۔ دو برس جیل کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد مان سنگھ کی تجویز پر اکبر نے معاہدہ کے ساتھ یوسف شاہ کو آزاد کردیا۔ بعد میں انہیں وہاں رہنے کے لیے زمین دی گئی اور 500 گھوڑ سوار فوجیوں کو رکھنے کی بھی اجازت دی گئی۔ بادشاہ یوسف شاہ نے کبھی اپنے دل سے کشمیر کو نہیں نکالا بلکہ انہوں نے آخری زندگی تک کشمیر کی یادیں میں دل میں بسا کر رکھا۔ رہتی دنیا تک کشمیر کی یادیں ان سے وابستہ رہیں اس کے لئے جس جگہ کو انہوں نے آباد کیا، اس کا نام کشمیر چک رکھا جو آج بھی وہ گاؤں کشمیری چک کے نام سے جانا جاتا ہے۔ بلکہ اسلام پور کے کئی گاؤں جس کا نام بادشاہ یوسف شاہ چک نے اپنے رشتے داروں یا قریبیوں کے نام سے رکھا ہے ان ناموں سے اسلام پور کے گاؤں جانے جاتے ہیں۔ جیسے کھرم پور، حیات چک، محی الدین چک وغیرہ کے نام قابل ذکر ہے۔
یوسف شاہ کا انتقال 1592 میں اڑیسہ میں ایک جنگ کے دوران ہوا اور ان کی وصیت کے مطابق میت کو کشمیر چک سے ملحقہ بسوا گاؤں میں دفن کرنے کے لئے بہار واپس لائی گئی۔
سرکاری کاغذات کے مطابق یوسف شاہ چک کی قبرستان کی زمین قریب پانچ ایکڑ پر پھیلی ہوئی ہے۔ بادشاہ اور ان کے رشتہ داروں کی قبریں زمین سے قریب دس فٹ اونچے ٹیلے پر ابھی موجود ہے۔ جسے دیکھ کر لگتا ہے کہ بادشاہ کو اونچی جگہ پر دفن کیا گیا یا پھر تدفین کے بعد اس جگہ پر ان کی یاد میں مزار کی شکل دینے کے لئے قلعہ بنایا گیا ہو۔
بادشاہ ان کے رشتہ داروں کی قبریں پختہ ہیں۔ قریب نصف کھٹھے کی زمین پر گھیرا بندی بھی موجودہ متولی نے ذاتی اخراجات سے کرایا ہے تاہم یہ چہاردیواری ناکافی ہے۔
رنگین بونڈری والس جس کی اونچائی قریب چار فٹ ہوگی اس میں یوسف شاہ چک، ان کی اہلیہ حبہ خاتون اور کنبہ کے دیگر افراد کی دس قبریں ہیں۔ یوسف شاہ چک کی قبر کے ایک طرف ان کے بیٹے کی قبر ہے جبکہ قبر کے نیچے حصے میں حبہ خاتون اور دوسرے رشتے داروں کی قبریں ہیں۔ قبرستان کی دیوار سن 2016 میں متولی یاسر خان چک نے تعمیر کرایا تھا، جو شاہی خاندان کا اولاد ہونے کا دعویٰ رکھتا ہے۔
قبرستان کے اندر جانے کے لیے دروازہ کھلا تھا اور آس پاس کے کھیتوں میں بکرے بھینس وغیرہ چر رہے تھے۔ باقی قبرستان غیر محفوظ ہے۔ زمین پر گاؤں کے لڑکے کھیلتے ہیں جبکہ قبرستان کی جگہ پر اس وقت مقامی افراد اپنے گھر بنائے ہوئے ہیں۔
مقامی افراد آن ریکارڈ بولنے سے گریزاں تھے۔ متولی یاسر خان چک کشمیری چک اور بسوک گاؤں کی تفصیلی تاریخ بتاتے ہوئے کہتے ہیں قبرستان کی اراضی پر ناجائز قبضہ ہوئے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ حکومت علاقے کی حفاظت کرے اور ان تجاوزات کو ختم کرے۔
یاسر خان چک مزید کہتے ہیں کہ اس قبرستان کو صرف مذہب سے جوڑ کر نہیں دیکھا جائے بلکہ یہ تاریخی مقام ہے اور ہمیں اس کی تاریخ کو محفوظ رکھنا چاہیے۔ وزیر اعلی نتیش کمار ،نائب وزیراعلی اور ریاست مرکز حتیٰ کہ جموں و کشمیر کے سابقہ حکومتوں کے دیگر عہدیداروں کو دوسو سے زیادہ خط لکھ چکے ہیں اور انہیں اس کے تحفظ کے لیے پہل کرنے کے لیے اپیل کی ہے لیکن ابھی تک کسی نے جواب نہیں دیا۔
انہوں نے بتایا کہ بہار سنی وقف بورڈ میں 1963 سے یہ زمین رجسٹرڈ ہے لیکن تجاوزات کا سلسلہ نہیں رکا ہے۔ 2018 میں نالندہ ضلع کے اس وقت کے ڈی ایم تیاگ راجن اور اس وقت کے اقلیتی فلاح افسر جتیندر کمار نے یہاں کا دورہ کر کے حکومت اور محکمہ اقلیتی فلاح کو اپنی رپورٹ بھیجی تھی جس میں قبرستان کی پوری اراضی پر باؤنڈری، ایک عالیشان دروازہ، زائرین کے بیٹھنے کے لیے ایک شیڈ، پینے کے پانی اور جس جگہ پر بادشاہ کی قبر ہے اس کو خوبصورت ڈیزائن کے ساتھ سنگ مرمر پتھر لگانے کی تجویز پیش کی تھی تاہم یہ تجویز سرد مہری کا شکار ہے اور آج تک یہاں کوئی کام نہیں ہوا ہے۔