پٹنہ میں منعقدہ اپوزیشن اتحاد کی میٹنگ پر مسلم سیاسی مبصرین کا ردعمل گیا: بہار کے دارالحکومت پٹنہ میں اپوزیشن اتحاد کے لیے لیڈران کی 2024 کے انتخاب کے پیش نظر وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی قیادت میں ایک اہم میٹنگ ہو رہی ہے، جس میں 2024 میں مرکز سے بی جے پی کو حکومت سے بے دخل کرنے اور اتحادی پارٹیوں کی قیادت میں حکومت بنانے پر غور کیا جا رہا ہے۔ ساتھ ہی یونیفارم سول کوڈ پر بھی گفتگو ہوگی تاہم اگر یہ اتحاد ہوتا ہے تو اس سے مسلمانوں کو کیا فائدہ ہوگا، مسلمانوں کا اس اتحاد پر کتنا اعتماد بحال ہوگا۔ مسلم پارٹیوں اور اُس کے رہنماؤں کی اس اتحاد میں شراکت اور کردار کیا ہوگا اور کشمیر کے علاوہ ملک کی دیگر مسلم پارٹیوں کے رہنماوں کو مدعو کیوں نہیں کیا گیا؟ ان سب سوالوں پر مسلم سیاسی مبصرین سے ای ٹی وی بھارت اُردو نے بات کی۔ جس پر مبصرین نے اپنے تاثرات کا اظہار کیا ہے۔
معروف سیاسی مبصر پروفیسر سید عبدالقادر نے ای ٹی وی بھارت اُردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن کے اتحاد کا مسلمان ہی نہیں بلکہ ہر انصاف اور امن پسند بھارتی خیرمقدم کرے گا کیونکہ بی جے پی حکومت میں ہر کوئی مسائل سے دو چار ہے اور آئین کو بالائے طاق رکھ کر ہر کسی کو تنگ و تباہ کیا جارہا ہے۔ ہاں یہ کہ مسلمان ہمیشہ سے ہی ملک میں امن قائم کرنے کا علمبردار رہا ہے، اس وجہ کر بھی خیر مقدم ہوگا۔
اُنہوں نے کہا کہ مسلمانوں کے سامنے آج ایک اہم مسئلہ ہے وہ یہ کہ آج مسلمان وجودی بحران سے گزر رہا ہے اور ایسی حالت میں ان کے جو چھوٹے مفاد ہیں اُسے در گزر کرنا ہوگا، دوسری بات یہ کہ مسلمانوں کا تھوڑا بہت بھلا مین اسٹریم کی پارٹیاں ہی کرسکتی ہیں، نام نہاد مسلم پارٹیاں اپنے مطلب کے لئے کام کرتی ہیں یا پھر ان جماعتوں میں جن میں ایک اویسی کی پارٹی بھی ہے، جن پر بی جے پی کی بی ٹیم کا ٹیگ ہے۔ ان کو نہیں بلانا ہی مفاد میں ہے۔
عبدالقادر سے سوال کیا گیا کہ قومی سطح پر نمائندگی کرنے والی مسلم پارٹیوں کو اگر نہیں شامل کیا جاتا ہے تو ووٹ کا بکھراؤ تو یقینی طور پر ہوگا جس پر اُنہوں نے کہا کہ یہ پارٹیاں اس صورت میں نقصان پہنچا سکتی ہیں جب مسلمان بحثیت ووٹر دانشمندی سے کام نہیں لیں گے لیکن حال کے انتخاب خاص کر کرناٹک کے اسمبلی الیکشن میں مسلمانوں کا جو کردار رہا ہے وہ فیصلہ کن رہا ہے، اُنہوں نے اس اتحاد سے مسلمانوں کا کیا فائدہ ہوگا؟ اس پر کہاکہ صرف مسلمان نہیں بلکہ ہر ہندوستانی جو یہاں کے آئین اور گنگا جمنی تہذیب میں یقین رکھتا ہے اُسکے لیے یہ ضروری ہے کہ ایک ایسی حکومت ہو جو خسارے اور نفرت کی سیاست نہیں کرتی ہو، باقی چیزیں آگے چل کر کی جاسکتی ہیں اور اس پر باتیں ہوسکتی ہیں۔
اُنہوں نے آج کی اپوزیشن کی میٹنگ پر کہا کہ ابھی فی الحال اس سے زیادہ اُمید کرنا بے وقوفی ہے۔ ابھی یہ ابتدائی میٹنگ ہے۔ اس لئے یہ فائنل میٹنگ نہیں ہے۔ آگے کس طرح اپوزیشن متحرک اور متحد رہتا ہے۔ یہ اہم ہوگا، کانگریس ابھی سیٹ شیئرنگ پر بات نہیں کرے گی، اُنہوں نے 2024 میں بی جے پی کا کیا کارکردگی ہوگا، اس پر اُنہوں نے کہا کہ یہ تو یقینی ہے کہ 2019 جیسا معاملہ نہیں ہوگا، ہاں یہ ضرور ہے کہ اپوزیشن کس مضبوطی سے اپنے ایجنڈہ اور اتحاد کو پیش کرتا ہے، یہ ساری چیزیں اسی پر منحصر ہیں۔
وہیں ہندی ماہنامہ سمئے منتھن کے ایڈیٹر اور سیاست پر گہری نظر رکھنے والے سراج انور کا الگ نظریہ ہے، ان کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کے بغیر کوئی بھی اتحاد بے معنی ہے۔کتنی عجیب بات ہے کہ اپوزیشن اتحاد کے سب سے بڑے پارٹنر مسلمان ہی ہیں۔ ان کے ہی ووٹ بینک پر اتحاد کی بنیاد رکھی جا رہی ہے اور مسلم قیادت والی پارٹیوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ کشمیر سے محبوبہ مفتی اور عمر عبد اللہ کو مدعو کیا گیا مگر آسام، حیدرآباد، اتر پردیش اور بہار کے مسلم رہنماؤں کی عدم شرکت اس میٹنگ کی کامیابی پر سوالیہ نشان ہے۔ میٹنگ کامیاب بھی ہو جائے، اتحاد بھی بن جائے اور مسلمانوں کی حصہ داری اس میں نہ ہو تو یہ کیسی کامیابی؟ بی جے پی بھی مسلمانوں کو نظر انداز کر رہی ہے، پھر سیکولر اور کمیونل فورسز میں کیا فرق رہ جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ بی جے پی کی اقتدار سے بے دخلی مسلمانوں کا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ مسئلہ ان کے لئے زیادہ باعث تشویش ہے جو اقتدار میں آنا چاہتے ہیں۔ مسلمانوں کو کیا ملنے والا ہے۔ کرناٹک میں مسلمانوں نے کانگریس کو ووٹ کیا، مگر انہیں نائب وزیر اعلی تک اسے نہیں بنایا گیا۔ اپوزیشن اتحاد کا مسلمان صرف اس وجہ سے خیر مقدم کرے گا کیونکہ بی جے بی حکومت میں مسلمانوں کو تنگ و تباہ کیا جا رہا ہے۔ مسلمان سکون کے ساتھ ترقی چاہتا ہے۔ اتحاد سے صرف یہی بھلا ہونا ہے۔ بی جے پی کی اقتدار سے بے دخلی اپوزیشن پارٹیوں کی اپنی مجبوری ہے۔
یہ بھی پڑھیں: Patna Opposition Meeting اگر ہم بہار جیت گئے تو پورے بھارت میں جیت جائیں گے، راہل گاندھی
واضح ہوکہ اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کی میٹنگ میں صرف دو مسلم پارٹیوں کے رہنماؤں کو مدعو کیا گیا ہے اور ان دونوں کا تعلق جموں وکشمیر سے ہے، جن میں ایک سابق وزیراعلی محبوبہ مفتی اور دوسرے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبد اللہ ہیں، جبکہ بقیہ دوسری مسلم پارٹیوں کے رہنماؤں بالخصوص آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسدالدین اویسی اور آسام کے بدرالدین اجمل کے ساتھ دیگر مسلم رہنماؤں کو اس میٹنگ سے دور رکھا گیا ہے۔