ان دانشوران کا کہنا ہے کہ عدالت عظمیٰ کی جانب سے جو بھی فیصلہ آئے گا وہ فریقین کے لیے قابل قبول ہوگا۔
اس تعلق سے ای ٹی وی بھارت سے گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر بدیع الزماں سابق امیرجماعت اسلامی گیا نے کہاکہ گذشتہ 40 دنوں کی سماعت میں جو ثبوت وشواہد پیش کئے گئے ہیں اس میں بابری مسجد کی ملکیت کا حق ملنے کی امید قوی ہے۔
انہوں نے مزید کہا ہے کہ یہ فیصلہ بھارت کی جمہوری نظام اور عدالت عظمٰی کے اعتماد کا بھی امتحان ہوگا ۔ اگر بالفرض ہمارے حق میں فیصلہ نہیں ہوتا ہے تو ہمیں صبروتحمل کے ساتھ فیصلے کوقبول کرناہوگا ، ملک کی ایکتا اور خوشگوار ماحول بنائے رکھنے میں فریقین کی اہم ذمہ داری ہونی چاہئے۔
جمیعتہ علماء ہند بہار کے صدر قاری معین الدین قاسمی نے عدالت عظمٰی پر بھروسے کااظہار کرتے ہوئے کہاکہ چیف جسٹس کی سربراہی والی بینج انصاف پرمبنی فیصلہ کریگی انہیں صد فیصد یقین ہے ۔ حق ملکیت کافیصلہ بابری مسجد کے حق میں اس لیے بھی آنے کی امید ہے کیونکہ حقیقت بھی وہی ہے کہ یہاں مسجد ہی تھی ۔ مسلم فریق کے وکلاء نے حقائق پیش کئے ہیں ، حالانکہ انکا بھی مانناہے کہ جو فیصلہ ہوگا وہ قابل قبول ہوگا مگراس سے بھی انکار نہیں کیا کہ فیصلہ بابری مسجد کی ملکیت کے حق میں نہیں آتا ہے تو آگے کا لائحہ عمل اس کے بعد ہی تیار نہیں ہوگا ۔
انہوں نے مسلمانوں سے صبروتحمل کے ساتھ رہنے کی اپیل کی ہے اور بھروسہ جتایا کہ ملکیت اور انصاف پر مبنی فیصلہ آئے گا۔