اردو

urdu

ETV Bharat / state

'مودی حکومت بھارت کو ہندو راشٹر بنانے پر آمادہ'

اترپردیش اور اتراکھنڈ کے سابق گورنر عزیز قریشی نے شدید نکتہ چینی کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ 'مودی حکومت بھارت کو ہندو راشٹر بنانے پر آمادہ نظر آرہی ہے'۔

مودی حکومت بھارت کو ہندو راشٹر بنانے پر آمادہ
مودی حکومت بھارت کو ہندو راشٹر بنانے پر آمادہ

By

Published : Feb 28, 2020, 11:22 PM IST

Updated : Mar 2, 2020, 10:00 PM IST

ریاست بہار کے شہر جمشیدپور میں قومی شہریت ترمیمی قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف شاہین باغ خاتون مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے اتراکھنڈ اور اترپردیش کے سابق گورنر عزیز قریشی نے الزام لگایا کہ 'مودی حکومت بھارت کو ہندو راشٹر بنانے پر آمادہ نظر آرہی ہے۔'

انہوں نے الزام لگایا کہ 'حکومت، ہر قدم پر پاکستان اور عمران خاں کا نام لیتی ہے اور ہر لمحہ وہ بات کرتی ہے جس سے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت میں اضافہ ہو۔'

انہوں نے کہا کہ اس ملک پر آٹھ سو برس سے زائد مسلمانوں نے حکومت کی، لیکن اس طرح کے حالات کبھی پیش نہیں آئے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایسے وقت میں مسلمانوں نے بھارت کو اپنا وطن بنایا جس کے پاس کئی ملک کو وطن منتخب کرنے کا متبادل موجود تھا، جب کہ ہندوؤں کے پاس صرف ایک ملک نیپال تھا جو ہندو راشٹر تھا۔

انہوں نے کہا کہ بھارت کے رہنما ہماری پسند تھے کیوں کہ ہمیں بھارت سے اور بھارتی تہذیب سے محبت تھی اور ہے اور اس ملک میں اپنی روایت کے ساتھ زندہ رہنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے جنگ آزادی میں مسلمانوں کی بے مثال قربانی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ سنہ 1857 میں ہزاروں مسلمانوں نے قربانی دی اور یہاں تک کے انگریزی حکومت میں ملازمت کرنے کوحرام سمجھا، اس کے باوجود مسلمانوں پر انگلیاں اٹھایا جانا افسوسناک ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم اس ملک کی تقسیم کے حصہ دار نہیں ہیں، ہمیں تو اس ملک میں ہماری آبادی کے تناسب کے ساتھ حصہ داری چاہیے۔

انہوں نے قومی شہریت ترمیمی قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلا ف جاری مظاہرے کے حوالے سے کہا کہ یہ آئین کا معاملہ ہے اور آپ لوگ دستور کو بچانے کے لیے سڑکوں پر نکلی ہیں، انہوں نے الزام لگایا کہ حکومت کا مقصد اس طرح کا معاملہ سامنے لاکر لوگوں کی توجہ اصل مسئلے سے ہٹانا ہے۔

انہوں نے ہندو مسلم اتحاد کے حوالے سے مہارانا پرتاپ کے کمانڈر حکیم خاں کی مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ اکبر کی فوج میں جسونت سنگھ سپہ سالار تھے، جب کہ مہارانا پرتاپ کی فوج کمان حکیم خاں کے ہاتھ میں تھی، دونوں طرف سے ہندو اور مسلمان لڑنے والے تھے۔ اس وقت نفرت اور انتشار کی کوئی ایسی بات نہیں تھی تو اس وقت کیوں ہے؟

کڈزی سکول جمشیدپور کی ڈائرکٹر اور سماجی کارکن زیباخاں نے دہلی میں فسادات کا ذکر کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ وزیر داخلہ کو دہلی کے حالات نہ سنبھالنے کے لیے استعفی دے دینا چاہیے۔

انہوں نے دہلی فسادات کو شرمناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ آج جب قومی دارالحکومت محفوظ نہیں ہے، تو ملک کے دوسرے شہروں کو کیسے محفوظ قرار دیا جاسکتا ہے، انہوں نے الزام لگایا کہ حکومت فسادیوں سے نمٹنے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔

انہوں نے جسٹس ایس مرلی دھر کے تبادلہ پر کہا کہ اس حکومت میں جج بھی محفوظ نہیں ہیں اور جو جج صحیح فیصلہ کرنے کی ہمت کرتے ہیں ان کا تبادلہ کردیا جاتا ہے۔

انہوں نے بی جے پی رہنماؤں پر ایف آئی آر درج نہ کرنے کے حوالے سے الزام لگایا کہ یہاں صرف بے قصور لوگوں پر کارروائی کی جاتی ہے اور مجرم کھلے عام گھومتے نظر آتے ہیں۔

اسی کے ساتھ انہوں نے قومی شہریت ترمیمی قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلا ف مظاہرین کی حمایت کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اس حکومت میں جمہوریت کی آواز کچلی جارہی ہے۔

اس کے علاوہ دیگر مقررین میں ڈاکٹر ارچنا ٹریڈ یونین، سماجی کارکن شیبا جارج،پلاننگ کمیشن کی سابق رکن سیدہ سیدین حمیدشامل ہیں۔

واضح رہے کہ کل خوریجی میں پولیس نے مبینہ طور پر طاقت کا استعمال کرکے مظاہرین کو ہٹادیا تھا اور مظاہرین کا انتظام وانصرام سنبھالنے والی سابق کونسلر ایڈووکیٹ عشرت سمیت پانچ لوگوں کو جہاں پولیس نے پہلے حراست میں لیا اور پھر 14 دنوں کی عدالتی حراست میں بھیج دیا ہے۔

ویڈیو فوٹیج میں مبینہ طور پر پولیس کو وہاں بنائے گئے انڈیا گیٹ کو توڑتے اور ٹینٹ کوپھاڑتے اور اکھاڑتے دیکھا جاسکتا ہے، اس کے علاوہ سماجی کارکنوں نے ان کی رہائی کی اپیل کی ہے۔

اس کے علاوہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں قومی شہریت قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف طلبہ اور عام شہری احتجاج کررہے ہیں اور 24گھنٹے کا مظاہرہ جاری ہے۔

دہلی میں تشدد کے بعد جامعہ ملیہ اسلامیہ میں مظاہرین نے سخت افسوس کا اظہار کرتے ہوئے پولیس کے رویے کی مذمت کی ہے۔ اس کے علاوہ قومی شہریت (ترمیمی) قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف دہلی میں ہی متعدد جگہ پر خواتین مظاہرہ کر رہی ہیں۔

نظام الدین میں شیو مندر کے پاس خواتین کامظاہرہ جاری ہے۔ تغلق آباد میں خاتون نے مظاہرہ کرنے کی کوشش کی تھی لیکن پولیس نے طاقت کا استعمال کرتے ہوئے ان لوگوں کو وہاں سے بھگا دیاتھا۔

اسی کے ساتھ اس وقت دہلی میں حوض رانی، گاندھی پارک مالویہ نگر، ترکمان گیٹ، بلی ماران، لال کنواں، اندر لوک، شاہی عیدگاہ قریش نگر، بیری والا باغ، نظام الدین، جامع مسجدسمیت دیگر جگہ پر مظاہرے ہورہے ہیں۔

اس کے علاوہ چننئی میں سی اے اے کے خلاف مظاہر ہ جاری ہے، حالانکہ حوض رانی میں بھی پولیس کی زیادتی کی خبر سامنے آئی ہے اس کے باوجود میں وہاں خواتین ڈتی ہوئی ہیں۔

مصطفی آباد، کردم پوری، نور الہی کالونی، شاشتری پارک،کھجوری، جعفرآباد، سلیم پور، موج پور، نو رالہی کالونی، چاند باغ، مصطفی آباد اور جمنار پار کے دیگر علاقوں میں تازہ فساد کی وجہ سے مظاہرہ بند ہے۔ جب کہ سیلم پور میں خواتین نے دوبارہ مظاہرہ شروع کردیا ہے۔

راجستھان کے امروکا باغ میں قومی شہریت ترمیمی قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلا ف جاری مظاہرہ 23ویں دن میں داخل ہوگیا۔

اس قانون کے تئیں لوگوں میں بیداری پیدا ہورہی ہے، اس کے علاوہ نوجوانوں کی ٹولی ان لوگوں کو گھروں میں جاکر اس قانون کے بارے میں بیدار کر رہے ہیں۔ اسی کے ساتھ دوسری ریاستوں سے سماجی کارکنان اظہار یکجہتی کے لیے پہنچ رہے ہیں۔

اس کے علاوہ راجستھان کے بھیلواڑہ کے گلن گری، کوٹہ، رام نواس باغ جے پور، جودھ پور، اودن پور اور دیگر مقامات پر، اسی طرح مدھیہ پردیش کے اندورمیں کئی جگہ مظاہرے ہور ہے ہیں۔

اندور میں کنور منڈلی میں خواتین کا زبردست مظاہرہ ہورہا ہے اور یہاں خواتین بہت ہی عزم کے ساتھ مظاہرہ کررہی ہیں، وہاں خواتین نے عزم کے ساتھ کہا کہ ہم اس وقت تک بیٹھیں گے جب تک حکومت اس سیاہ قانون کو واپس نہیں لیتی۔

اندور کے علاوہ مدھیہ پردیش کے بھوپال، اجین، دیواس، مندسور، کھنڈوا، جبل پور اور دیگر مقامات پر بھی خواتین کے مظاہرے ہورہے ہیں۔

اترپردیش قومی شہریت(ترمیمی) قانون، این آر سی، این پی آر کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کے لیے سب سے مخدوش جگہ بن کر ابھری ہے جہاں بھی خواتین مظاہرہ کرنے کی کوشش کررہی ہیں وہاں پولیس طاقت کا استعمال کرتے ہوئے انہیں ہٹا دیا جاتا ہے۔

وہاں 19 دسمبر کے مظاہرہ کے دوران 22 لوگوں کی ہلاکت ہوچکی ہے۔ خواتین گھنٹہ گھر میں مظاہرہ کررہی ہیں ا ور ہزاروں کی تعداد میں خواتین نے اپنی موجودگی درج کروارہی ہیں۔

اترپردیش میں سب سے پہلے الہ آباد میں چند خواتین نے احتجاج شروع کیا تھا اب ہزاروں میں ہیں، خواتین نے روشن باغ کے منصور علی پارک میں مورچہ سنبھالا اور اپنی آواز بلند کر رہی ہیں۔

اس کے بعد کانپور کے چمن گنج میں محمد علی پارک میں خواتین مظاہرہ کررہی ہیں۔ اترپردیش کے ہی سنبھل میں پکا باغ، دیوبند عیدگاہ، سہارنپور، مبارک پور اعظم گڑھ، اسلامیہ انٹر کالج بریلی، شاہ جمال علی گڑھ، اور اترپردیش کے دیگر مقامات پر خواتین مظاہرہ کر رہی ہیں۔

شاہین باغ دہلی کے بعد سب سے زیادہ مظاہرے بہار میں ہورہے ہیں اور وہاں دلت، قبائلی سمیت ہندوؤں کی بڑی تعداد مظاہرے اور احتجاج میں شامل ہورہی ہے۔

ارریہ فاربس گنج کے دربھنگیہ ٹولہ عالم ٹولہ، جوگبنی میں خواتین مسلسل دھرنا دے رہی ہیں ایک دن کے لیے جگہ جگہ خواتین جمع ہوکر مظاہرہ کررہی ہیں۔

اسی کے ساتھ مردوں کا مظاہرہ بھی مسلسل ہورہا ہے، کبیر پور بھاگلپور، گیا کے شانتی باغ میں گزشتہ 29 دسمبر سے خواتین مظاہرہ کررہی ہیں اس طرح یہ ملک کا تیسرا شاہین باغ ہے، دوسرا شاہین باغ خوریجی ہے۔

سبزی باغ پٹنہ میں خواتین مسلسل مظاہرہ کر رہی ہیں۔ پٹنہ میں ہی ہارون نگر میں خواتین کا مظاہرہ جاری ہے۔ اس کے علاوہ بہار کھکڑیا کے مشکی پور میں، نرکٹیا گنج، مونگیر، مظفرپور، دربھنگہ، مدھوبنی میں ململ اور دیگر جگہ، ارریہ کے مولوی ٹولہ،سیوان، چھپرہ، کھگڑیا میں مشکی پور، بہار شریف، جہاں آباد، گوپال گنج، بھینساسر نالندہ، موگلاھار نوادہ، مغربی چمپارن، بیتیا، سمستی پور، تاج پور، کشن گنج کے چوڑی پٹی اور متعدد جگہ، بیگوسرائے کے لکھمنیا علاقے میں زبردست مظاہرے ہو ہے ہیں۔

بہار کے ہی ضلع سہرسہ کے سمری بختیارپورسب ڈویزن کے رانی باغ میں خواتین کا بڑا مظاہرہ ہورہا ہے۔

Last Updated : Mar 2, 2020, 10:00 PM IST

ABOUT THE AUTHOR

...view details