جن میں سے بڑے بھائی کی عمر آٹھ سال اور چھوٹے کی پانچ سال ہے۔ جو ابھی کھیلنےکودنے اور زندگی کے رنگوں سے لطف اندوز ہونےکی عمر ہے، لیکن اس کم عمری میں ہی والد کا ہاتھ بٹانے کی ذمہ داری اس ناتواں کندھوں پر آپڑی ہے۔
جس کے باعث دونوں سڑک کنارے پھل فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔ حالانکہ بچہ مزدوری قانوناً جرم ہے، لیکن جب پیٹ میں بھوک ہو اور گھر میں اناج نہ ہو تو اس طرح کا جرم انسان کی مجبوری بن جاتی ہے۔
حسن اور حسین کے والد بازار سے پھل لا کر دیتے ہیں اور دونوں بھائی یوں ہی روزانہ پھل فروخت کر گھر کے واسطے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرتے ہیں۔
حالانکہ پھل بھی عام رمضان کی طرح اس سال کم ہی فروخت ہو رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے لوگوں کے پاس پیسے نہیں ہیں، اس کے علاوہ پھل کے دکانداروں کی تعداد بھی زیادہ ہوگئی ہے کیونکہ مزدوری اور دیگر کام بند ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بچپن کا زمانہ بڑی ہی نایاب اور انمول شے ہوتی ہے۔ یہ دور انسان کی وہ قیمتی متاع ہے، جس کے کھوجانے کا غم انسان کو ہمیشہ ستاتا ہے۔
بھلے ہی انسان کتنے ہی بلند مقام ومرتبے یا کسی بھی عمر کو پہنچ جائے، لیکن حسن اور حسین اکیلے نہیں ہیں جن کا بچپنا بھوک اور لاچاری کی بھینٹ چڑھ رہا ہے بلکہ ہمارے ملک میں لاکھوں حسن اور حسین جیسے معصوم ہیں جن کیلئے بچپن ایک حسین یاد نہ بن کر کرب و یاس بن کر ذہن و خیال میں ہمیشہ گونجتی رہے گی اور اس ناموافق حالات کے اس جیسے بچوں کے ذہنی نشود نما پر بھی منفی اثر پڑنے کا خدشہ رہتا ہے۔