مغلیہ دور میں بھی اس فن کی بڑی دھوم رہی۔ فن خطاطی نے عالمی سطح پر مسلمانوں کو ایک ایسی تہذیبی و ثقافتی شناخت بخشی جو صرف اسی قوم کا خاصہ ہے۔
آج بھی قدیم شاہی عمارتوں اور مساجد کے ستونوں پر بنائے گئے طغرے ہمارے جمالیاتی ذوق کو تسکین بخشتے ہیں۔ قدیم روایتی فن خطاطی کو بھارت میں عروج بخشنے والوں میں ایک اہم نام طارق ابن ثاقب کا ہے جن کا تعلق ریاست بہار کے ضلع ارریہ میں واقع معروف گاؤں جوگندر سے ہے۔
طارق ابن ثاقب نے ارریہ جیسے پسماندہ علاقے سے نکل کر فن خطاطی میں انفرادی درجہ کمال حاصل کیا۔ جس سے ضلع کا نام ملکی سطح پر ہی نہیں بلکہ بیرون میں بھی روشن ہوا۔
اسی وجہ سے طارق ابن ثاقب کو ملک میں اس وقت فن خطاطی کا امام کہا جاتا ہے۔ انہوں ںے ملک میں اس فن کو نئے رنگ و روپ سے آراستہ کرنے اور اسے نئی جہت دینے میں جس جہد مسلسل اور جانفشانی کا مظاہرہ کیا ہے اور اس کا جو حصہ وافر انہیں نصیب ہوا ہے وہ فی الوقت شاذ و نادر ہی کسی کو نصیب ہوا ہے
طارق ابن ثاقب کو یہ فن ورثہ میں ملا ہے، آپ کے والد ثاقب نعمان اچھے شاعر کے ساتھ عمدہ خطاط بھی تھے، طارق ابن ثاقب کی خطاطی کی ابتداء تو آبائی وطن ارریہ میں ہوئی لیکن خوش نویسی کا اصل دور دارالعلوم دیوبند میں زمانہ طالب علمی کے دوران شروع ہوا، طالب علمی کے زمانے میں ہی طارق ابن ثاقب کتابوں کے دلکش ٹائٹل، خوش نما کتبے، اور دل آویز طغرے بنانے شروع کر دئے تھے۔
سنہ 1987 میں دارالعلوم سے فراغت کے بعد ایک بہترین خطاط کے ساتھ قومی سطح پر عمدہ شاعر کی حیثیت سے ملک بھر میں پہچانے گئے۔
طارق ابن ثاقب کو فکر و آگہی کا شاعر بھی کہا گیا، انہوں نے قرآنی آیات کے جو سینکڑوں طغرے لکھے ہیں انہیں دیکھ کر آنکھوں میں نور آ جاتا ہے۔
ان کا کمال ظرف یہ ہے کہ انہوں نے کبھی اسے ذریعہ معاش نہیں بنایا لیکن اس فن سے دلچسپی کا عالم یہ ہے کہ اپنے دور شباب سے لے کر اب تک شب و روز کے بیشتر حصے اس فن کے نوک و پلک سنوارنے میں ہی گزارتے آ رہے ہیں۔
ان کی فنکارانہ صلاحیت کا جادو ملک ہی نہیں غیر ممالک میں بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ طارق ابن ثاقب نے خط نستعلیق، خط نسخ، خط ثلث، خط کوفی، خط دیوانی اور خط رقعہ میں سو سے زائد طغرے لکھے ہیں۔