گیا:ریاست بہار کے ضلع گیا میں واقع خانقاہ بیت الانوار کے عرس کے موقع پر کنیا ویواہ اور نکاح بیداری ورجسٹریشن کیمپ لگا۔ بہار کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ عرس کے موقع پر کسی آستانے سے اجتماعی شادی کے رواج کو عام کرنے کی دعوت دی گئی۔ اس کے لیے ایک بڑا کیمپ بھی لگایا گیا جہاں پر زبانی اور تحریری طور پر عرس میں آئے عقیدت مندوں نے معلومات حاصل کیں۔
واضح ہوکہ آج شہر گیا کے گیوال بیگہ میں حضرت نورالہدی علیہ الرحمہ کا سالانہ عرس منایا گیا۔ یہاں بہار، جھارکھنڈ، چھتیس گڑھ اور اڑیشہ سمیت کئی ریاستوں سے عقیدت مندوں کی آمد ہوئی۔ عرس میں لوگوں کا ہجمو ہوتا ہے۔ اس بار بھی عقیدت مندوں کی ہجوم تھی۔ تاہم عقیدت مندوں کی توجہ کا مرکز اس بار ' کنیا دان اور اجتماعی نکاح ' بیداری و رجسٹریشن کیمپ بھی رہا۔
عرس میں آنے والے ویسے لوگ جو اقتصادی طور پر انتہائی کمزور ہیں اور اُن کے گھروں میں بچیوں کی شادی ہے تاہم وہ شادی کے موقع پر اپنی بچی کو تحفہ میں دیے جانے والے سامانوں اور کھانے پینے کا انتظام کرنے سے مجبور ہیں۰ ویسے لوگوں سے کیمپ میں تفصیل لی گئی ہے تاکہ ان کی بچیوں کی بھی شادی کا انتظام ' اجتماعی نکاح' کی تقریب میں کیا جاسکے۔ یہ کیمپ ' کنیا ویواہ اینڈ ویکاس سوسائٹی ' کی جانب سے لگایا گیا تھا۔
اس سوسائٹی اور مہم کا فاؤنڈر ایک غیر مسلم وکاس مالی نام کا نوجوان ہے۔ حالانکہ وکاس مالی کی اس مہم میں مسلم طبقے کے لوگوں کی بھی شراکت ہے اور سبھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ وکاس سوسائٹی کی یہ مہم نا صرف غریب بچیوں کے والدین کے لئے سہارا ہے بلکہ لوگوں کے لیے ایک مشعل راہ بھی ہے۔
اجتماعی شادی تقریب کے سرپرست اور خانقاہ بیت الانوار کے اہم رکن مولانا عمر نورانی کے ذریعے بتایا گیا کہ گزشتہ 13 برسوں میں گیا ضلع کے علاوہ مختلف اضلاع میں قریب 13 ہزار غریب بچیوں کی اجتماعی شادی کرائی گئی ہے اور اس میں خاص بات یہ ہے کہ اجتماعی شادی میں ہندو مسلم اتحاد کا مظاہرہ بھی ہوتا ہے۔
ایک طرف ہندو طبقے کی بچیوں کی شادی پنڈتوں کے ذریعے ان کے مذہبی رسم و رواج کے مطابق انجام دینے کا عمل ہوتا ہے تو دوسری طرف اسی جگہ کے دوسرے حصے پر مسلم بچیوں کا نکاح قاضی پڑھاتے ہیں۔ 13 ہزار میں چار ہزار سے زیادہ مسلم بچیوں کی شادی وکاس سوسائٹی کی جانب سے اجتماعی شادی تقریب اور انفرادی انتظامات کے تحت کرائی گئی ہے۔ یعنی کہ ویسے لوگوں کی بھی مدد کی گئی ہے جنہوں نے اپنی بچیوں کی شادی گھروں سے کی ہیں۔
آپسی بھائی چارے کی ہے مثال
مولانا عمر نورانی نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایاکہ اجتماعی شادی کی تقریب کی رسومات اپنے اپنے مذہبی عقائد کے تحت انجام پاتی ہیں۔ ہندو طبقے کے دلہا ودلہن کی شادی کی رسم پنڈت ادا کراتے ہیں اور جو مسلم بچیوں کی شادی ہوتی ہے اس میں قاضی صاحب نکاح پڑھاتے ہیں۔ اس سے جہاں ایک غریب سماج کا جو بہت بڑا مسئلہ شادی کے موقع پر اخراجات کا ہے وہ حل ہوتاہے ۔ ساتھ ہی دوسرا ایک بہت بڑا مسئلہ اس میں حل یہ ہوتاہے کہ مذہبی کشیدگی ، منافرت ، آپسی دوری اور ایک دوسرے کی خوشیوں سے دور ہونے کا مسئلہ ناصرف ختم ہوتا ہے بلکہ ہم اپنی صدیوں قدیم گنگا جمنی روایت ، آپسی رابطہ و محبت ،بھائی چارگی اور بین المذہب اتحاد کو بھی فروغ دیتے ہیں۔ اس اتحاد کا یہ پہلو بھی ہم دکھا رہے ہیں کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ ایک طرف 50 ہندو بچیوں کی شادی ہو اور دوسری جانب 50 مسلم بچیوں کی شادی ہو۔ ایسا بھی سماج میں ہو سکتا ہے اور یہ ممکن ہے۔