اردو

urdu

By

Published : Oct 26, 2022, 8:57 PM IST

ETV Bharat / state

Joint Events Orgnized in Patna عطا کاکوی اور اختر اورینوی کی مشترکہ تقریبات کا انعقاد

پٹنہ میں محکمہ کابینہ سکریٹریٹ، اردو ڈائریکٹوریٹ کے زیر اہتمام عطاکاکوی اور اختر اورینوی کی مشترکہ یادگاری تقریبات کا انعقاد عمل میں آیا۔ Joint events of Ata Kakvi and Akhtar Orenvi In Patna

عطا کاکوی اور اختر اورینوی کی مشترکہ تقریبات کا انعقاد
عطا کاکوی اور اختر اورینوی کی مشترکہ تقریبات کا انعقاد

پٹنہ: محکمہ کابینہ سکریٹریٹ، اردو ڈائریکٹوریٹ کے زیر اہتمام ابھیلیکھ بھون بہار اسٹیٹ آرکائیو ڈائریکٹوریٹ، بیلی روڈ، پٹنہ کے کانفرنس ہال میں معروف شاعر و ادیب عطا کاکوی اور معروف افسانہ نگار اختر اورینوی کی یادگاری تقریبات کا انعقاد عمل میں آیا۔

اس تقریب میں مقالہ نگاروں نے عطا کاکوی کی شخصیت اور کارنامے پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ عطاکاکوی بر صغیر کے ایک بلند پایہ قادر الکلام شاعر ، معتبر محقق ، دیدہ ور ناقد، شگفتہ زبان انشاء پرداز ،مستند ماہر زبان اور قد آور صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عالی مرتبت انسان تھے۔مقالہ نگاران نے کہا کہ عطا کاکوی کی شخصیت کے نمایاں اوصاف خوش طبعی، اعلیٰ ظرفی، وسیع النظری، کشادہ دلی، منکسرالمزاجی، بذلہ سنجی ، وضع داری ، خود داری اور علم دوستی تھے۔ بہار کے نامور ناقد اور ادیب وہاب اشرفی کے مطابق وہ علم کے سمندر اور ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے۔ اردو اور فارسی شعراء کے کلام پر ان کی گہری نظر تھی۔ انہوں نے تقریباً ستر برسوں تک اپنے خون جگر سے اردو اور فارسی زبانوں کے شعر و ادب کی آبیاری کی۔ عطا کاکوی نے درجنوں اردو اور فارسی شعرا کے کلام کا جو تقابلی جائزہ لیا ہے وہ ادب کا بیش قیمت سرمایہ ہے۔

عطا کاکوی کی یاد گاری تقریب کی صدارت معروف افسانہ نگار و سابق سکریٹری بہار اردو اکادمی مشتاق احمد نوری نے کی۔ صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عطا کاکوی کو اردو اور فارسی دونوں زبانوں پر بلا کی مہارت حاصل تھی جس کے سبب انہیں عوام و خواص میں یکساںمقبولیت حاصل تھی۔ فارسی میں تحریر کی ہوئی ان کی کتاب ہندستان کے باہر دوسرے ملک کے نصاب تعلیم میں داخل ہیں، یہ ان کی عظمت اور شخصیت کی واضح دلیل ہے۔ عطا کاکوی کا سب سے مضبوط اور اہم کام تذکرہ نگاری ہے۔

انہوں نے تنقید نگاری کے حوالے سے کہا کہ تنقید کا مطلب تخلیقی جمالیات کو بیان کرنا ہے نہ کہ تنقیص یا خامی تلاش کرنا ہے جو آج کل زیادہ تر دیکھا جا رہا ہے۔ تقریب میں ڈاکٹر ہمایوں اشرف، ڈاکٹر انور حسین نے عطا کوی کی شخصیت کے مختلف پہلوئوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔دوسرے اجلاس میں اختر اورینوی کو یاد کیا گیا. تقریب کی صدارت پروفیسر امتیاز احمد سابق ڈائرکٹر خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ نے کی۔ ڈاکٹر محسن رضا رضوی، ڈاکٹر عبد الباسط حمیدی، ڈاکٹر محمد منہاج الدین نے مشترکہ طور پر اختر اورینوی پر اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اختر اورینوی بہار کے ایک ایسے صاحب قلم گذرے ہیں جنہوں نے ناول نگاری، تنقید نگاری، افسانہ نگاری اور ڈرامہ نگاری کے ذریعہ اردو ادب کی بیش بہاخدمات انجام دیں اور اردو کی تاریخ میں ایک نمایاں مقام حاصل کرکے بہار کا نام روشن کیا۔

اس تقریب کے صدارتی خطاب میں پروفیسر امتیاز احمد نے اختر اورینوی کی شخصیت اور مختلف فنون پر ان کے دسترس کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ وہ اچھے مقرر تھے، الفاظ کے جادوگر تھے، ان کے پاس الفاظ کا ذخیرہ تھا، بحیثیت استاد بھی وہ کافی بلند و بالا مقام رکھتے تھے ۔پروفیسر امتیاز نے اختر اورینوی کی شگفتہ مزاجی او ربذلہ سنجی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ایک مرتبہ ہندی ساہتیہ کار اور اردو کے ادیب کسی تقریب میں موجود تھے۔ تقریب کے اختتام پر جب وہ جانے لگے تو دونوں نے اپنی اپنی کمر میں تکلیف کی شکایت کی۔ وہیں پر اختر اورینوی صاحب تھے انہوں نے کہا کہ درد کیونکر نہ ہوگا۔ ہندی او راردو کی ریڑھ تو ایک ہی ہے۔ تقریب کی نظامت حسیب الرحمن انصاری نے بحسن و خوبی انجام دیا جب کہ ہدیہ تشکر ڈائرکٹر احمد محمود نے پیش کیے۔

یہ بھی پڑھیں : Urdu program through Urdu Learning Center: غیر اردو دانوں کو اردو میں دلچسپی

ABOUT THE AUTHOR

...view details