آج مورخہ 3 اپریل2021 کو ایسا غمناک اور المناک واقعہ پیش آیا کہ زبان بند اور دل بے قابو ہے۔ مولانا عبدالسبحان رحمانی کا کہنا ہے کہ یہ المناک اور غم ناک خبر سن کر انہیں ایسا لگا کہ جیسے کے اچانک ان پر بجلی گری۔
انہوں نے کہا کہ 'میری پوری زندگی ان کے ساتھ گزری۔ ذرا ہوش سنبھالا تبھی سے ان کے ساتھ رہنے کا موقع ملا۔ میں نے انہیں خلوت اور جلوت دونوں میں دیکھا ہے۔ اتنا ذہین، دور رس اور جُری آدمی میں نے اس ملک میں نہیں دیکھا۔
میں نے دین کے معاملے میں اتنی مضبوط شخصیت ملک و بیرون ملک بھی بھی کہیں نہیں دیکھی۔ تادم اخیر میرا رابطہ اور تعلق ان سے رہا۔
وہ میرے لیے والدین کی حیثیت رکھتے تھے۔ انتہائی درد اور محبت کے ساتھ انہوں ںے ہماری رہنمائی اور آبیاری دونوں کی۔ پالا پوسا بھی اور جامعہ رحمانی میں تعلیم مکمل کروانے کے بعد وہیں پڑھانے کا موقع بھی دیا۔
استاذ بھی تھے، مربی اور رہنما بھی تھے۔ عمر کے لحاظ سے ہمارے مابین زیادہ فاصلہ نہیں تھا لیکن انہون ںے ایک مخلص و ہمدرد، ایک عزیز کی طرح، قریبی بھائی کی طرح رکھا اور اس طرح پوری زندگی جامعہ رحمانی میں ہم نے گزار دی۔ اور اس محبت میں کبھی رتی بھر بھی فرق نہیں آیا یہی وجہ ہے کہ میں جامعہ رحمانی کا ہی ہوکر رہ گیا۔
میں نے ان کے والد صاحب رحمتہ اللہ علیہ کو بھی قریب سے دیکھا ہے۔ یہ اپنی زندگی میں پچاسوں مدارس کے ذمہ دار رہے۔ دین و ملت کا کام اس جرات و بے باکی اور ذہانت کے ساتھ کیا کہ آج ایسی ایک شخصیت ملنی مشکل ہے۔ اب اللہ تعالی نے انہیں اپنے پاس بلا لیا۔ یہ تو مشیت کا فیصلہ ہے لیکن ابھی ان کی ضروت قوم و ملت کو تھی۔
جو حالات ابھی ملک میں پیدا ہو رہے ہیں اور جن حالات سے مسلمان دو چار ہیں ایسے موقع پر جرات مندی کے ساتھ مسلمانوں کے مسائل حل کرنا اور بڑے بڑے امور میں رہنمائی کرنا ان کی انفرادیت تھی۔ ابھی ہندوستان کا ہر چھوٹا بڑا ان کی کمی کو محسوس کرے گا۔ ان کے جانے کے بعد ان کی اہمیت مزید محسوس کی جائے گی۔