مذہب اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس میں انسانی زندگی کے تمام اصول و ضوابط بتائے گئے ہیں، ان ہی میں سے ایک ہے نکاح جسے نصف الایمان کہا گیا ہے. مگر بعض اوقات کسی شخص کے ازدواجی زندگی بہتر اور کامیاب نہیں ہوتی تو شریعت میں بھی ان مسائل کا حل واضح ہیں، مرد کے لیے طلاق ہے اور عورت کے لیے خلع، عام طور سے لفظ طلاق کے ذریعہ عوامی سطح پر یہ تاثر دینے کی کوشش ہوتی ہے کہ بیوی سے نباہ نہ ہونے پر مرد طلاق کے ذریعہ ناکام ازدواجی زندگی چھٹکارا پا سکتا ہے جبکہ عورت کے پاس مرد سے نباہ نہ ہونے پر اسے یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ اس سے چھٹکارا حاصل کر سکے. کم معلومات کی وجہ سے یہ باتیں عام ہیں، اسلام میں جو حقوق مردوں کے لیے ہیں وہی حقوق خواتین کے لیے بھی ہیں، بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ کی سب سے بڑی دینی و شرعی تنظیم امارت شرعیہ میں دارالقضاء کا قیام اسی مقصد سے عمل آیا تھا جہاں گھریلو معاملات کا نپٹارا ہو سکے۔Solving the issue of divorce in the Emirate Sharia
خلع دراصل اسے کہتے ہیں جب شوہر کا سلوک بیوی کے تئیں ٹھیک نہ ہو اور بیوی شوہر کے حرکت و عمل سے خود کو محفوظ نہ سمجھتی ہو تو ایسے میں اسلام نے عورت کو یہ حق دیا ہے کہ وہ ایسے مردوں سے خلع لیکر آزاد ہو جائے. امارت شرعیہ کے نائب قاضی مفتی وصی احمد قاسمی بتاتے ہیں کہ خلع کے لئے شوہر اور بیوی دونوں کی رضامندی ضروری ہے، جبکہ اگر شوہر خلع کے لئے راضی نہیں بھی ہو تو بیوی فسق نکاح کرا سکتی ہے۔
بہار میں بھی بڑی تعداد میں خواتین ان مردوں سے خلع لے رہی ہیں جن مردوں کا رویہ اپنے شوہر کے تئیں ٹھیک نہیں ہوتا. گزشتہ ایک سال میں امارت شرعیہ کے دارالقضاء میں کل 4331 معاملات درج ہوئے ہیں جن میں 1638 معاملہ صرف خلع کے تعلق سے ہے. امارت شرعیہ کے قاضی شریعت مولانا قاضی انظار عالم قاسمی کہتے ہیں کہ امارت شرعیہ میں خلع لینے کے لئے بیوی اپنے شوہر کے ساتھ پہنچتی ہیں. پہلے ہم لوگ دونوں کے درمیان صلح کی کوشش کرتے ہیں، بات نہیں بننے پر دونوں کی رضامندی سے خلع ہوتا ہے۔
قاضی شریعت مفتی انظار عالم بتاتے ہیں کہ امارت شرعیہ میں درج ہونے والے مقدمات سے عدالت کا بوجھ کم ہوتا ہے، کسی فریق کو یہاں کے فیصلے کو چیلنج کرنے کا بھی مکمل اختیار ہوتا ہے، یہاں کے ذریعہ کئے گئے فیصلے کو عدالت نہ صرف سراہتی ہے بعض اوقات اسے بہتر بتاتی ہے۔
خلع لینے کا سماجی طور پر سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ جس خاندان میں شوہر بیوی کے درمیان ازدواجی زندگی بہتر نہیں ہوتی وہاں عورت ان اذیت سے محفوظ ہو جاتی ہیں جو آئے دن حادثات کے شکل میں سننے کو ملتا ہے۔
عدالتوں میں جہاں ایک طرف مختلف معاملات کے ہزاروں مقدمات زیر التوا ہیں، وہیں دارالقضاء میں درج ہونے والے مقدمات کا فوری طور پر نپٹارا کیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے لوگوں کا رجحان دارالقضاء کی جانب بڑھا ہے۔
مزیدپڑھیں:Khatme E Bukhari in Emirate Sharia: دارالعلوم الاسلامیہ امارتِ شرعیہ میں ختم بخاری شریف کا اجلاس اختتام پذیر
تین صوبوں میں قائم دارالقضاء سے جہاں خواتین بڑی تعداد میں شریعت کی روشنی میں اپنے معاملات حل کرا رہی ہیں وہیں اس بات کا بھی ازالہ ہوتا ہے کہ اسلام مرد اور عورت میں کسی طرح کا تفریق نہیں کرتا اور دونوں کو یکساں حقوق فراہم کرتا ہے۔