اردو

urdu

ETV Bharat / state

آزاد بھارت میں چمپارن کے بھیتیہروا آشرم کی اہمیت

سولہ نومبر 1917 کو بابائے قوم مہاتما گاندھی چمپارن کے بھتیہروا آشرم پہنچے، وہاں کے حالات کو دیکھتے ہوئے باپو نے خود کے رہنے کے لیے ایک جھونپڑی اور بچوں کو پڑھانے کے لیے اسکول قائم کیا جو برطانوی عہدیداروں کو قبول نہیں تھا، آخر کار انگریزوں نے سازش کے تحت باپو کے جھوپڑی میں آگ لگوا کر انہیں مارنے کی کوشش کی، لیکن ناکام رہے ۔

آزاد بھارت میں چمپارن کے بھیتیہروا آشرم  کی اہمیت
آزاد بھارت میں چمپارن کے بھیتیہروا آشرم کی اہمیت

By

Published : Jan 30, 2020, 8:00 PM IST

Updated : Feb 28, 2020, 1:55 PM IST

باپو کے نام سے مشہور موہن داس کرم چند گاندھی کو، آج ان کے برسی کے موقع پر تمام ملک یاد کر رہا ہے، باپو کا نام جب بھی ملک میں لیا جاتا ہے ،تو چمپارن کا نام آنا لازم ہو جاتا ہے۔

ملک کے کچھ مقامات میں سے چمپارن وہ مقام ہے جہاں بابائے قوم کے قدم پڑے تھے، جہاں ان کی کئی ساری یادیں آج بھی باقی ہیں۔

آزاد بھارت میں چمپارن کے بھیتیہروا آشرم کی اہمیت۔ ویڈیو

چمپارن ملک کی وہ سر زمیں ہے جہاں سے مہاتما گاندھی نے نہ صرف آزادی کی بگل پھونکا تھا، بلکہ چمپارن میں ہی روزگار پر مبنی تعلیم کے لئے ملک کا پہلا بنیادی اسکول1917 میں قائم کیا تھا، جو بھتیہروا آشرم کے ورنداون میں واقع ہے۔ یہ آشرم ضلع ہیڈ کوارٹر سے نو سے دس کلومیٹر دور ہے، باپو کے ہاتھوں بنیاد رکھے جانے والے اس اسکول میں آج بھی بچوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ ہنر بھی سکھایا جاتا ہے۔

آزاد بھارت میں چمپارن کے بھیتیہروا آشرم کی اہمیت

اسکول میں آج بھی لکھا ہے باپو کا پیغام
اسکول میں داخلہ لیتے ہی طلبا کے اندر مختلف قسم کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہےکیونکہ اندر داخل ہوتے ہی، متاثر کرنے والے باپو کے پیغام لکھے ہوئے ہیں، اس میں کہا گیا ہے کہ 'اگر نوجوان اچھے اخلاق و اطوار نہیں سیکھتے ہیں، تو پھر ان کی ساری تعلیم بیکار ہے'۔ اس کے نیچے ایک اور پیغام لکھا ہے ، 'اگر آپ انصاف چاہتے ہیں تو آپ کو بھی دوسروں کے ساتھ انصاف کرنا چاہئے'۔'

باپو سے متعلق چیزیں آج بھی ان کی بنائی جھونپڑی میں موجود ہے

آزاد بھارت میں چمپارن کے بھیتیہروا آشرم کی اہمیت

چمپارن ستیہ گرہ کے دوران، مہاتما گاندھی اور کستوربا گاندھی نے اپنے ہاتھوں سے 1917 میں آشرم اور اسکول بنائے تھے، جو آج بھی بھتیہرروا میں موجود ہے، اسکول کی گھنٹی سے لے کر میز تک جو باپو نے اپنے ہاتھوں سے بنائے تھے۔ کنواں ،اور کستوبرا گاندھی کی چکی ، بھی موجود ہے جو لوگوں کو 'باپو' کی یاد دلاتی ہے۔

باپو ہاتھی پر بیٹھ کر پہلی بار بھتیہروا پہنچے تھے۔

اپریل 1917 کا دن تاریخ کے صفحات میں درج ہے، جب باپو، راج کمار شکل کی درخواست پر مغربی چمپارن کے گاؤں بھیتیہروا پہنچے تھے، بھتیہروا کا فاصلہ نرکٹیا گنج سے 16 کلومیٹر، اور بیتیا سے 54 کلومیٹر ہے، باپو یہاں دیوانند سنگھ اور بربل جی کے ساتھ پہنچے تھے ۔ کہا جاتا ہے کہ باپو پہلے پٹنہ پہنچے جہاں وہ ڈاکٹر راجندر پرساد کے بنگلے میں ٹھہرے، پھر باپو وہاں سے موتیہاری کے لئے روانہ ہوئے۔

راج کمار شکل کی درخواست پر باپو موتیہاری سے بیتیا پہنچے جہاں سے وہ ہاتھی پر بیٹھ کر کمار باغ ہوتے ہوئے سری رام پور بھیتیہروا گاؤں گئے، باپو نے گاؤں کے بابا رام نارائن داس سے آشرم کے لئے زمیں مانگی، اور بابا نے زمین فراہم کردی،جس پر 16 نومبر 1917 کو باپو نے ایک اسکول اور ایک جھونپڑی بنائی۔

باپو کا یہاں قیام برطانوی حکام کو بالکل بھی قبول نہیں تھا۔ ایک دن بیلوا کوٹھی کے ' اے سی ایمن' صاحب نے کوٹھی میں آگ لگوا دی، برطانوی عہدیداروں کا سازش تھی کہ سوتے ہوئے باپو کا قتل کر دیا جائے، لیکن اتفاقی طور پر، باپو اس دن قریبی گاؤں گیے ہوئے تھے۔

اس واقعے کے بعد گاؤں کے لوگوں نے باپو کے لیے پکے کمرے کی تعمیر کی جس کی بنیاد باپو نے خود اپنے ہاتھوں سے رکھی۔

اس وقت ملک میں باپو کے دو بڑے آشرم ہیں، احمد آباد میں سابرمتی، اور مہاراشٹر میں وردھا، لیکن بھتیہروا باپو کی زندگی سے وابستہ جذباتی اور معاشرتی زندگی کا ایک اہم پہلو ہے۔

Last Updated : Feb 28, 2020, 1:55 PM IST

ABOUT THE AUTHOR

...view details