اردو

urdu

ETV Bharat / state

گیا: شبنم پروین آتم نربھر بھارت کی آئیکون - شبنم پروین بہار کی پہلی خاتون

گیا کے دیہات کی رہنے والی شبنم پروین معاشرے کی روایت میں جکڑی خواتین کے لیے مثال ہیں، آتم نربھر بھارت کی نمائندگی کرتے ہوئے والدین کے لیے سہارا بنیں، روزگار سے اپنی شادی کے اخراجات اٹھائے اور آج وہ سسرال والوں کی آنکھوں کی تارہ ہیں۔

گیا: شبنم پروین آتم نربھر بھارت کی آئیکون
گیا کی شبنم آتم نربھر بھارت کی آئیکون

By

Published : Oct 4, 2021, 7:33 PM IST

گیا کے نکسل متاثر علاقہ موہن پور بلاک کے ریڈی وار گاؤں کی شبنم پروین جسمانی طور پر معذور ہونے کے باوجود معاشرے کی خواتین کے لیے مثال ہیں۔ سیرت و کردار اور محنت سے سسرال اور گھروالوں کے لیے سہارا ہیں، شادی سے قبل سنہ 2018 میں انہوں نے پندرہ دنوں کی تربیت حاصل کر کے موم بتی بنانے کا کام سیکھا اور اس کے بعد وہ کئی سارے ڈیزائن کی موم بتیاں اور دیے بناتی ہیں۔

ویڈیو

چین و دیگر بیرون ممالک سے بھارت درآمد کی جانے والی موم بتی کے ڈیزائن آسانی سے شبنم بنالیتی ہیں۔ ان کے اس کام میں ان کے سسرال کے لوگوں کا بھی بھرپور تعاون ہوتا ہے۔

شبنم داہنے پاؤں سے معذور ہیں تاہم انہوں نے اسے کبھی اپنی مجبوری نہیں بننے دی۔ ان کے حوصلے تو بلند ہیں تاہم آج وہ معاشرے میں ایسی خواتین جو اقتصادی طور پر خود کفیل بننا چاہتی ہیں لیکن رشتے ناطے اور معاشرے کی تنگ نظری اور طنز کی وجہ سے اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے سے کشمکش میں مبتلا ہوتی ہیں ان سبھی خواتین کے لیے شبنم ایک مثال ہیں۔ وہ گاؤں اور قصبے میں جاکر معاشرے میں بیداری پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور ان خواتین کو روزگار سے جوڑنے اور کسمپرسی و غریبی کی زندگی سے باہر نکالنے کی کوشش کرتی ہیں، انہیں تربیت دیتی ہیں اور روزگار سے جوڑتی ہیں اب تک پچاس سے زیادہ خواتین ان سے تربیت حاصل کرچکی ہیں۔


شبنم کہتی ہیں کہ انہیں افسوس نہیں ہے کہ وہ معذور ہیں اور نہ ہی معاشرے کے ان مردوں کی ذہنیت سے کوئی اثر پڑتا ہے جو سوچتے ہیں کہ عورتیں گھر کی چار دیواری میں رہیں خواہ ان کے گھر میں ایک وقت کے کھانے کے لالے کیوں نہیں پڑجائیں؟ اپنے کردار اور نظریہ پر اعتماد ہو تو گھر کے باہر کوئی آپ کو بری نگاہ سے دیکھ نہیں سکتا، اب وقت آگیا ہے کہ دیہی خواتین اپنے شوہر اور بیٹوں کی کمائی کی محتاج نہ ہوں اور خواتین اپنی مہارت اور فن کی وجہ سے خود کفیل ہونے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے لیے روزگار پیدا کریں'۔


شبنم بتاتی ہیں کہ ان کے والدین مالی طور پر کمزور تھے، والدین کو ان کی شادی کو لیکر فکر تھی لیکن وہ والدین پر بوجھ نہیں بننا چاہتی تھیں اور اسی فکر کے ساتھ وہ جیویکا تنظیم سے جڑیں اور اس کے بعد انہوں نے موم بتی بنانے کی تربیت لی، شروعاتی دنوں میں میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ ان کے پاس اتنی رقم نہیں تھی کہ سامان خریدیں، قرض لے کر انہوں نے موم بتی بنانے کے ڈھانچے اور سامان جمشید پور ٹاٹا سے خرید کر لائی اور اس کی شروعات کی۔ ان کی پہلی کمائی 80 ہزار روپے ہوئی تھی، شبنم ہر طرح کی رنگ برنگی موم بتیاں، موم کے دیے، موم کا لالٹین، پانی میں تیرنے والا دیا، کرسمس، برتھ ڈے، پارٹی اور گھر کی سجاوٹ والی موم بتیاں وغیرہ سمیت پچاس سے زائد ڈیزائن کی موم بتی بناتی ہیں حالانکہ کورونا وبا کی وجہ سے ان کے روز گار پر بھی اثر پڑا لیکن اس دوران اس نے ماسک بناکر اپنی آمدنی کو جاری رکھا۔

سسرال والے شبنم کی سیرت اور محنت سے متاثر ہیں
شبنم بتاتی ہیں کہ انہیں لگتا تھا کہ وہ شادی کے بعد روزگار سے منسلک نہیں رہ پائیں گی کیونکہ ایک تو وہ معذور ہیں اور دوسرا یہ کہ دیہات میں عام طور پر گھر کی بہوؤں کو باہر جانے کی اجازت نہیں ہوتی ہے، تاہم ان کی سوچ شادی کی بعد بدل گئی کیونکہ نہ صرف انہیں کام کرنے کی اجازت دی گئی بلکہ شوہر، ساس سسر اور سبھی رشتے دار ان کے کام میں تعاون کرتے ہیں۔ شبنم کی ساس اور سسر کہتے ہیں کہ بہو نہیں بلکہ شبنم بیٹی کی طرح ہے، ہر خوبی جو ایک اچھی بہو میں ہونی چاہیے وہ ہیں، شبنم کے کام سے وہ خوش ہیں۔'


مرکزی حکومت کا ہنر باز ایوارڈ مل چکا ہے
شبنم پروین کو مرکزی برائے دیہی ترقیات اور پنچایتی راج کی وزرات کی جانب سے گزشتہ دنوں ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ شبنم پروین بہار کی پہلی خاتون ہیں جنہیں اس ایوارڈ سے نوازا گیا ہے، انہیں یہ ایوارڈ وزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعے شروع کی گئی مہم " آتم نربھر بھارت ' اور ووکل فار لوکل" میں اہم کردار ادا کرنے کی وجہ سے ملا ہے۔

حکومت کرے مالی مدد
شبنم کہتی ہیں کہ دیہات کی عورتیں بھی روزگار کرکے خود کفیل بننا چاہتی ہیں تاہم انہیں حکومت کی طرف سے مالی امداد نہیں دی جاتی ہے۔ قرض میں سبسڈی ملے تو ہر گھر کی خواتین جو مالی طور پر کمزور ہیں وہ روزگار سے منسلک ہوسکتی ہے، محکمۂ صنعت کو پہل کرنی چاہیے کہ اس طرح کے روزگار کی بھی شروعات کرے اگر انہیں حکومت سے مالی مدد ملے تو وہ اس روزگار میں ہزاروں خواتین کو جوڑ سکتی ہیں۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details