موسیقی کی سازاحساسات کو سمجھنے کا انوکھا ذریعہ ہے:پدم شری استاد شاہد پرویز گیا:ریاست بہار کے ضلع گیا میں آج موسیقی آلہ سیتار کے معروف ساز گار پدم شری استاد شاہد پرویز نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی انٹرویو میں موسیقی کے ساتھ قومی یکجہتی، حب الوطنی، مذہبی ہم آہنگی اور موجودہ سیاسی و سماجی حالات پر گفتگو کی ہے۔ پدم شری شاہد پرویز نے بتایا کہ موسیقی کی زبان پیار، محبت، دلوں کو جوڑنے اور نفرت کو ختم کرنے والی زبان ہے۔ اس کو سنتے بجاتے اور گاتے وقت انسان کسی دوسری چیز کا خیال دماغ میں نہیں لاتا جس طرح عبادت کے وقت ہوتا ہے۔ موسیقی کو سنتے وقت دل صاف ہوتے ہیں۔ مذہب نفرت نہیں سیکھاتا اور دوسری بات یہ کہ جس چیز کو لوگ مذہب سمجھتے ہیں وہ مذہب نہیں ہے۔ لوگ کلچر پہناوے لباس اور حلیے کو مذہب سمجھ بیٹھے ہیں۔
استاد شاہد پرویز نے کہا کہ موسیقی میں نہ تو بٹوارہ ہوا ہے اور نہ ہی ہوگا۔ انہوں نے بتایا کہ میں نے اس نظر سے کبھی نہیں دیکھا کہ کس شعبے میں مسلم زیادہ ہیں یا کسی میں ہندو زیادہ ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ جس میں صلاحیت ہوتی ہے وہ چھا جاتا ہے، چاہے اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو۔ انہوں نے روایتی آلات سے متعلق کہا کہ ڈیجیٹل زمانے میں موسیقی کے آلات بھی ڈیجیٹل ہوگئے ہیں جس سے اب ایک ہی مشین سے ستار طبلہ سنتور کی دھنیں بجائی جاسکتی ہیں۔
انہوں نے روایتی اور قدیم آلات سے متعلق مزید کہا کہ حقیقی چیزوں کا ذائقہ اور لطف مصنوعی چیزوں سے نہیں آسکتا۔ اس لیے قدیم اور روایتی آلات کے شائقین موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہی تو اپنے ملک بھارت کی خوبصورتی ہے کہ جہاں مسلم آبادی نہیں ہے وہاں بھی ہماری ثقافت زندہ اور قائم ہے۔ ذاتی تجربات کی بنا پر میں یہ کہے سکتا ہوں کہ جس اختیار اور حق کے ساتھ ہم اس ملک میں رہتے ہیں ویسے حقوق اور اختیارات دوسرے ممالک میں نہیں ہے۔ انہوں نے پاکستان کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پہلی مرتبہ جب ایک پروگرام کے لئے جارہا تھا تو دل میں یہی بات تھی کہ وہ بھی تو اپنے بھارت کا ہی حصہ تھا اس لیے وہاں کی ثقافت اور دوسری چیزیں یہیں کی طرح ہوں گی، تاہم ہم نے وہاں ایسا نہیں پایا۔ اس لیے ہمارا ملک ایک ایسا ملک ہے، جہاں پر ہر مذہب کے لوگوں کو برابر کے حقوق حاصل ہیں۔ انہوں نے گیا کو کلاسیکل موسیقی کا پرانا شہر بتایا اور کہا کہ لوگوں کے ذہن میں بنگال مہاراشٹر اور چنئی جیسے شہروں کے تعلق سے یہ ذہن میں باتیں گھر کر گئی ہیں کہ یہی موسیقی کے شہر ہیں، لیکن ایسا نہیں ہے بہار بھی کلاسیکل موسیقی کا قدیم شہر ہے۔
شاہد پرویز کا ماننا ہے کہ ملک کے موجودہ ناخوشگوار حالات سیاسی سازش کا حصہ ہیں اور سیاسی افراد اپنی سہولت کے لیے نفرتوں کو پیدا کرتے ہیں۔ لیکن ایک بات یہ بھی ہے کہ جولوگ نادان ہوتے ہیں وہی بہکاوے اور اشتعال انگیز معاملوں میں پڑتے ہیں، جب کہ سمجھ داروں کا دور تک اس طرح کی باتوں سے واسطہ نہیں ہے۔ آج ہمیں وشنو پد میں اکثریتی آبادی سنے گی۔ اسے کیا کہیں گے یہ بھی تو محبت اور ثقافت کی ایک مثال ہے۔ وشنوپد مندر ایک عالمی شہرت یافتہ مندر ہے۔ یہاں مندر میں ہندو مذہب کے ماننے والوں کے علاوہ دوسرے کسی مزہب سے تعلق رکھنے والوں کو اندر جانے کی اجازت نہیں ہے۔ شاہد پرویز کہتے ہیں کہ گیا آنا ان کے لیے اعزاز کی بات ہے اور یہاں مندر کے اندرونی حصے میں پیشکش کا موقع ملتا ہے تو زہے نصیب۔ ہم نے ملک کی سبھی درگاہوں، مٹھوں اور مندروں میں فن کا مظاہرہ کرکے دعائیں حاصل کی ہیں۔ مزید کہا کہ یہاں وشنوپد مندر میں ان کی عقیدت کا معاملہ ہے۔ دوسرے فرقے کے لوگوں کو جانے کی اجازت نہیں ہے، اس کا ہم احترام کرتے ہیں۔
مزید پڑھیں:Gaya Bitho Sharif Dargah Urs گیا میں مخدوم درویش اشرف کے آستانے پر دو مارچ سے عرس کا اہتمام
شاہد پرویز نے وزیر اعظم نریندر مودی کا نعرہ سب کا ساتھ سب کا ویکاس کی تعریف کی اور کہا کہ جو شخص کام کرتا ہے اسی سے غلطی بھی ہوتی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ صرف تنقید کی جائے۔ اچھا کام ان کی قیادت میں ہوا ہے جس کی تعریف ہم تو کریں گے اور یہی انسانی فطرت ہونی چاہیے۔ واضح رہے کہ پدم شری شاہد پرویز گیا کے وشنو پد میں پھلگو مہوتسو میں شرکت کرنے کے لیے پہنچے ہیں، یہاں ان کی خصوصی پیشکش ہوگی۔