گیا ضلع میں سابق مرکزی وزیر ناگمنی نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کو بڑھا دیا ہے ، ایک بار پھر سے وہ متحرک ہوچکے ہیں اور اپنی پارٹی شوسست انقلاب پارٹی کو مضبوطی فراہم کرنے میں لگے ہیں۔ اس دوران انہوں نے ایک نئے اتحاد کا نعرہ دیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ وہ اگر ایم کے بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو اگلا وزیر اعلی انکی پارٹی کا کوئی فرد ہوگا۔ ریاست بہار کے ضلع گیا میں آج سابق مرکزی وزیر ناگمنی نے کہا کہ ان کی پارٹی ' شوسست انقلاب ' پارٹی 2024 کے پارلیمانی انتخاب کی تیاریوں میں مصروف ہوگئی ہے اور بہار جھارکھنڈ سے کل چار سیٹوں پر وہ اپنا امیدوار کھڑا کرے گی چونکہ پارٹیوں کے اتحاد کا دور چل رہا ہے تو اس صورت میں یہ کہنا بجا نہیں ہوگا کہ اگر انہیں دونوں اتحاد' انڈیا اتحاد یا این ڈی اے ' میں جگہ ملتی ہے تو وہ ضرور شامل ہوں گے۔
ناگمنی نے کہا کہ ان کی پارٹی میں یوں تو سبھی ذات برادری اور علاقے کے لوگوں کی حصہ داری اور شمولیت ہوگی تاہم اس کا بنیادی ڈھانچہ مسلم اور کوئری سماج ہوگا کیونکہ ان کے والد شہید جگدیو پرساد نے ہی درج فہرست ذات اور مسلمانوں کے حقوق کی بازیابی اور سیاسی حصہ داری کے لیے لڑائی لڑی ۔ جس کے نتیجے میں انہیں شہادت کا مزہ چکھنا پڑا ۔ ان کی لڑائی اس مہم تک جا پہنچی کہ پہلے انہیں بہار کا لیلن کہا جاتا تھا ۔ لیکن اب انہیں ملک کا لیلن کہا جاتا ہے ۔ شہید جگدیو پرساد نے اپنی زندگی غریب درج فہرست اور اقلیتوں کے حقوق دلانے کی لڑائی میں خود کو وقف کر دیا تھا ۔ ان کی پارٹی کی پالیسی شہید جگدیو پرساد کے اصول اور نظریات پر ہی مشتمل ہیں ، انہوں نے اس دوران مرکزی و ریاستی حکومت کو تنقید کا نشانہ ضرور بنایا تا ہم اس بات سے یہ انکار نہیں کیا کہ ان کے لیے دونوں اتحاد میں راستے کھلے ہیں، جہاں سے انہیں اچھے آفر ملیں گے وہاں وہ شامل ہوں گے۔ ان کے لیے دونوں اتحاد سے اتحاد کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
پچھڑوں کے ریزرویشن میں ہو اضافہ
ناگمنی بہار کے جہان آباد ضلع کے رہنے والے ہیں اور انکے والد جگدیو پرساد بہار کے پچھڑوں کے رہنماوں میں ایک تھے جنہوں نے پچھڑوں کے حقوق کی لڑائی لڑی تھی ۔ ناگمنی بھی اب اسی لائن پر چلنے لگے ہیں ۔ انہوں نے گیا میں کہا کہ بڑی برادریوں کی ملکی سطح پر دس فیصد آبادی ہے اور اُنہیں دس فیصد ریزرویشن بھی دے دیا گیا،میں اسکا استقبال کرتا ہوں تاہم سوال یہ کہ درج فہرست ذات کی آبادی 52فیصد ہے تو پھر اُنہیں ریزرویشن 27 فیصد ہی کیوں دیا گیا ،پارٹی اس کی لڑائی سڑک سے لیکر عدالتوں تک لڑ رہی ہے ،دس فیصد آبادی ہونے کے باوجود بڑی برادری کے لوگ عدالتوں میں 98 فیصد بحال ہیں اور جو نوّے فیصد درج فہرست اور اقلیتی طبقہ کے لوگ ہیں اُنکی حصے داری صرف برائے نام ہے یعنی کہ دو فیصد ہی بحال ہیں ،اسلئے ہم مانگ کرتے ہیں کولیجیم سسٹم کو رد کیا جائے کیونکہ اس میں ہمیں اقرباء پروری کا معاملہ نظر آتا ہے اور اس میں ' پک اینڈ چوائس ' کے تحت بحالی ہوتی ہے اس نظام کو جب تک نہیں ختم کیا جائے گا ہمارے لوگ عدالتوں میں جج کی کرسی پرفائز نہیں ہونگے۔اسلئے ہم مانگ کرتے ہیں کہ جوڈیشری سسٹم نافذ کیا جائے تاکہ اس میں بھی نوے فیصد آبادی کی حصے داری بڑھے۔