بہار کے شہر گیا میں واقع اقلیتی گرلز ہاسٹل میں سپرنٹنڈنٹ کی عدم موجودگی کے باعث گزشتہ روز لڑکیوں کے درمیان ہوئے جھگڑے Fight Between Girls Students نے اتنا طول پکڑ لیا کہ متعلقہ افسر کو پہنچ کر مداخلت کرنی پڑی۔
اطلاعات کے مطابق گیا کے شانتی باغ محلے میں واقع اقلیتی گرلز ہاسٹل متعدد مسائل اور دیگر سہولیات سے محروم ہے، اس کی شکایت گرلز ہاسٹل میں مقیم طالبات نے کئی بار متعلقہ محکمہ سے کی لیکن ان کی مسائل کا کوئی حل نہیں نکلا۔
گیا اقلیتی گرلز ہاسٹل میں طالبات کے درمیان لڑائی اقلیتی گرلز ہاسٹل سو بیڈس پر مشتمل ہے جس میں تیس سے پینتیس طالبات رہتی ہیں۔ لڑکیوں کی تعداد کم ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ سپرنٹنڈنٹ یہاں مہینوں تک نہیں آتی، داخلے کا پر کیا ہوا فارم سالوں تک پڑا رہتا ہے لیکن کوئی کاروائی نہیں ہوتی۔
گرلز ہاسٹل ہونے کی وجہ سے یہاں افسران کی مداخلت نہ کے برابر ہوتی ہے سپرنٹنڈنٹ ہاسٹل میں نہیں رہتی ہیں جبکہ پہلے ایک کیئرٹیکر کو رکھا گیا تھا تاہم اسی برس چار ماہ قبل اسے نکال دیا گیا اب ہاسٹل کی دیکھ بھال محض دو خاتون گارڈ کرتی ہیں۔
مزید پڑھیں:
ہاسٹل میں اکثر اوقات لڑکیاں کسی بات کو لے کر آپس میں جھگڑ جاتی ہیں لڑکیوں کے جھگڑے کا شور کبھی کبھار اتنا ہوتا ہے کہ پاس میں واقع مکانات کے لوگوں کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گزشتہ کل بھی اسی طرح کا معاملہ پیش آئے جس کی اطلاع گارڈ نے سپرنٹنڈنٹ ایم این انجم کو دی جس کے بعد انہوں نے اس کی اطلاع پٹنہ محکمہ اقلیتی فلاح کے اعلیٰ افسران کو اطلاع دی جس کے بعد محکمہ نے ضلع کے افسران کو معاملے کو شانت کرانے کی ہدایت دی۔
اس سلسلے میں جب ای ٹی وی بھارت کے نمائندہ نے ہاسٹل سپرنٹنڈنٹ پروفیسر ایم این انجم سے رابطہ کیا تو انہوں نے نہ تو بات کی اور ناہی فون کال ریسیو کیا واضح رہے کہ اس سے قبل بھی گرلز ہاسٹل بدنظمی اور بے توجہی کو لیکر سرخیوں میں رہا ہے یہاں رہنے والی لڑکیوں نے متعدد مرتبہ افسران کو تحریری طور پر شکایت درج کرائی ہے۔