تعلیمی اداروں کے ذمہ داران کا کہنا ہے کہ اَن لاک میں جس طرح سے معمول کی زندگی کا آغاز ہوگیا ایسے میں بڑے بچوں کو تعلیم سے محروم نہیں رکھا جاسکتا۔
طلباء کا تعلیمی سلسلہ منقطع ہونے کا ڈر بہار کے ضلع گیا میں بھی کورونا وبا کی وجہ سے مختلف شعبوں کے ساتھ تعلیمی شعبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے اس کی وجہ سے اسکولوں سے بچوں کے ڈراپ آؤٹ کا سلسلہ جاری ہے۔ تاہم اس بات کو ابھی درست نہیں کہا جاسکتا کیونکہ اسکول ابھی کھلے نہیں ہیں۔ اسکول کھلنے کے بعد بچوں کی غیر حاضری اور اس کی تحقیقات کے بعد ہی بچوں کے بارے میں صحیح معلومات سامنے آئے گی۔
شہر گیا میں واقع اقرا پبلک اسکول، شتابدی پبلک اسکول، سینسنس ورلڈ اسکول سمیت کئی اسکولوں کے ذمہ داران کے مطابق طلبا کے ڈروپ آؤٹ ہونے کی خبریں ہیں اور یہ سلسلہ صرف نجی اسکولوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ سرکاری اقلیتی اسکولوں میں بھی بچوں کے ڈراپ آوٹس ہوں گے۔
اقلیتی برادری بالخصوص مسلم بچوں کے ڈراپ آؤٹس کی وجہ بچوں کے سرپرستوں کا مالی طور پر کمزور ہونا ہے کیونکہ لاک ڈاون کی وجہ سے وہ لوگ جو نجی اداروں یا دوکان وغیرہ میں کام کرتے تھے ان میں بڑی تعداد کام سے ہٹائے جانے والوں کی ہے یا پھر ان کی تنخواہ میں کٹوتی کا معاملہ ہے۔
شتابدی پبلک اسکول علی گنج کے پرنسپل اعجاز کریم کہتے ہیں کہ گزشتہ برس سے ہی ڈراپ آؤٹس کا معاملہ ہونے لگا تھا۔ کچھ اسکولوں کے منیجمنٹ کے ذریعے فیس اور کئی اہم چیزوں میں رعایت کی وجہ سے ڈراپ آوٹ کا فیصد کم رہا۔
انہوں نے شتابدی اسکول کے اعداد و شمار کے مطابق کہا کہ 'کافی کوششوں اور فیس میں رعایت یا پھر پوری طرح سے فیس معاف کرنے کے بعد بھی 5 سے 10 فیصد ڈراپ آؤٹ کا معاملہ رہا۔
گزشتہ برس لاک ڈاون کے بعد جب اسکول کھلا تو بچوں کی غیر حاضری پر والدین سے رابطہ کیا گیا جس میں کچھ تو بچوں کو بھیجنے پر راضی ہوئے جبکہ کچھ بچوں کے تعلق سے رپورٹ ملی کہ وہ والدین کے کام کاج میں لگ گئے ہیں۔
انہوں نے کہا صرف اسکول ہی نہیں بلکہ اب معاشرے کے لوگوں کو بھی ڈراپ آوٹس کو روکنے کی پہل کرنی ہوگی کیونکہ یہ صرف اسکول کا معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ معاشرہ، ملک و ریاست کی خوشحالی و ترقی اور بچوں کے مستقبل کا سوال ہے۔ اس لیے سبھی کو مل کر ایسے لوگوں کی مدد کرنی ہوگی جو مالی طور پر کمزور ہیں۔ اسکول منیجمنٹ سے بات کرکے بچوں کی فیس میں رعایت یا معاف کرنے کی بات کریں۔
اقرا پبلک اسکول کے سکریٹری پروفیسر بدیع الزماں نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ 'پسماندہ اور معاشی اعتبار سے کمزور بچوں کے ڈراپ آؤٹ کا ڈر زیادہ ہے۔ وقت پر اسکول نہیں کھلے تو بچوں کو اسکول سے جوڑنا بڑا مشکل ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ جن اسکولوں میں ہزاروں بچے تھے وہاں اب سینکڑوں پر معاملہ سمٹ گیا ہے۔ حالانکہ یہ اعداد و شمار اسکول کے کھلنے کے بعد ہی واضح ہوں گے تاہم آن لائن کلاس میں جتنے بچے شرکت کررہے ہیں اس سے صاف ظاہر ہے کہ بچوں کی تعداد کم ہوئی ہے جو کہ تشویش کا معاملہ ہے۔
حکومت کو بھی اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ جو یومیہ مزدوری کرنے والے افراد کے بچے اسکول پہنچ رہے تھے ان کا تعلیمی منقطع نہ ہو۔
ہادی ہاشمی سینئر سیکنڈری اسکول کے پرنسپل نفاست کریم کا ماننا ہے کہ 'مسلم تعلیمی اداروں میں خاص طور پر سرکاری اسکولوں میں ڈراپ آؤٹ کا سب سے زیادہ خطرہ چھٹی جماعت کے بعد سے شروع ہوتا ہے جو دسویں جماعت تک جاری رہتا ہے۔ خدشہ اس بات کا ہے کہ اگر چھٹی اور آٹھویں کی ریگولر کلاسز شروع نہیں کی گئیں تو پسماندہ اور معاشی طور پر کمزور بچوں کو اسکول سے جوڑنا بڑا مشکل ہوجائے گا۔