رمضان المبارک کے آخری عشرہ جہاں جہنم سے نجات کا ہے وہیں اس عشرہ میں کچھ سنت ایسی ہیں جس کو ادا کرنا علی الکفایہ ہے، انہیں میں ایک اعتکاف ہے۔ اعتکاف اگر ایک یا چند اشخاص بھی کر لیں تو سب بری الذمہ ہو جائیں گے اور کسی نے بھی اعتکاف نہیں کیا تو محلے کا ہر فرد گناہ گار ہوگا، البتہ یہ سوال اہم ہے کہ اگر آبادی بڑی ہو اور اس میں کئی مساجد ہوں تو کیا سنت کی ادائیگی کے لئے ہر مسجد میں اعتکاف کرنا ضروری ہے یا پھر محلے کی ایک مسجد میں ہی اعتکاف کر لینا کافی ہے۔ فقہاء کے نزدیک اس بات پر زور ہے کہ اگر محلے کے ہر مسجد میں اعتکاف ہو تو بہتر ہے لیکن ان میں سے اگر ایک مسجد میں بھی اعتکاف کر لیا جائے تو پورے محلے کی طرف سے اس سنت کی ادائیگی ہو جائے گی۔
'آبادی والی مسجد میں ایک آدمی بھی اعتکاف میں نہیں بیٹھا تو سب گناہ گار ہوں گے'
ریاست بہار کے ضلع ارریہ کے خلیل آباد مسجد کے امام و خطیب مولانا مفتی انتخاب عالم قاسمی نے اعتکاف کے موضوع پر ای ٹی وی بھارت سے خصوصی بات چیت کے دوران کہا کہ اگر محلے کے ہر مسجد میں اعتکاف ہو تو بہتر ہے لیکن ان میں سے اگر ایک مسجد میں بھی اعتکاف کر لیا جائے تو پورے محلے کی طرف سے اس سنت کی ادائیگی ہو جائے گی۔
مفتی انتخاب عالم نے کہا کہ اعتکاف کا معنی ہے اپنے آپ کو کسی چیز سے روکے رکھنا یا خود کو کسی جگہ بند کر لینا. اس کی شرعی تعریف یہ ہے کہ ایسی مسجد میں عبادت کی نیت سے ٹھہرنا جس میں اذان و اقامت کے ساتھ پنج وقتہ نمازوں کی جماعت ہوتی ہو۔ حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اللہ کی رضا کے لیے ایک دن کا اعتکاف کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے اور جہنم کے درمیان تین خندقوں کو آڑ بنا دیتا ہے اور ایک خندق کی مسافت آسمان و زمین کی درمیانی مسافت سے زیادہ چوڑی ہے.
مفتی انتخاب عالم نے مزید کہا کہ جب عام دنوں میں ایک دن کے اعتکاف کی یہ فضیلت و اہمیت ہے تو وہ لوگ جو رمضان جیسے بابرکت مہینے میں اعتکاف کریں گے تو ان کو کس قدر جہنم سے حفاظت ہوگی اور وہ کتنے ثواب کا مستحق ہوگا. اعتکاف اکیس رمضان کے شب سے شروع ہو کر عید کے چاند رات تک کا ہوتا ہے.