اپنی بہادری سے انگریزوں کی ناک میں دم کرنے والا کوئی اور نہیں بلکہ اُس دور کے عظیم مجاہد آزادی اور پیشے سے مشہور ڈاکٹر کشوری لال کنڈو کے چھوٹے بیٹے دھرو کنڈو (Dhruv Kundu) تھے۔ دھرو کنڈو بچپن سے ہی بہت بہادر تھے۔ 1942 میں وہ مہاتما گاندھی کی 'بھارت چھوڑو تحریک' میں کود پڑے۔
11 اگست 1942 کو انقلابیوں نے رجسٹری آفس میں آتشزنی کرکے تمام کاغذات کو خاکستر کردیا۔ 13 اگست 1942 کو کٹیہار شہر کے سب رجسٹرار دفتر کو بھی تباہ کردیا گیا تھا۔ منصف کورٹ سمیت سرکاری دفاتر سے برطانوی حکومت کے پرچم اکھاڑ پھینکے اور قومی پرچم ترنگا لہرایا گیا۔
منصف کورٹ پر ترنگا لہرانے کے دوران دھرو کُنڈو کو آگے بڑھتے دیکھ انگریز پریشان ہوگئے اور ان پر فائرنگ کردی جس میں سے ایک گولی ان کی ران میں لگ گئی تھی۔ انہیں علاج کے لیے پورنیہ صدر ہسپتال پہنچایا گیا لیکن 15 اگست 1942 کو انہوں نے 13 سال کی عمر میں دنیا کو الوداع کہہ دیا۔ دھرو کنڈو سب سے کم عمر مجاہد آزادی میں سے ایک ہیں، جنہوں نے ملک کے لیے اپنی جان قربان کی۔
دھرو کنڈو میموریل کنسٹرکشن موومنٹ کے سربراہ گوتم ورما نے کہا کہ دھرو کنڈو ایک انقلابی لڑکا تھا۔ ملک کے لیے جو جذبات ہونے چاہئیں، جو جنون اور لگن ہونی چاہئے وہ اس لڑکے میں دِکھی۔ انہوں نے دکھادیا کہ عمر کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ انسان میں قابلیت، جذبہ اور ملک کے تئیں محبت ہونی چاہئے۔
- قومی پرچم لہرانے کے لئے بڑھتے رہے قدم
ادبی اور سماجی کارکن بھولا ناتھ آلوک کا کہنا ہے کہ ایک 13 سالہ بچہ اسکول جارہا تھا لیکن سب ڈویژن آفس، کٹیہار کے دفتر میں ترنگا جھنڈا لہرانے کا خیال اس کے ذہن میں چل رہا تھا۔ گھر سے ماں کو بتاکر نکلا کہ پڑھنے جارہا ہوں، راستے میں کسی ساتھی کو ساتھ لیکر گیا اور قومی پرچم کو لے کر آگے بڑھتا گیا۔