بگہا، چمپارن:بہار کے چمپارن ضلع کے بگہا میں گزشتہ روز مہاویری جلوس کے دوران مورتی توڑنے کی افواہ کے بعد ٹاؤن تھانہ کے رتن مالا میں دو فرقوں کے افراد میں تصادم ہو گیا تھا۔ حالانکہ حالات قابو میں ہیں تاہم کشیدگی اب بھی برقرار ہے، اطلاع کے مطابق 22 اگست کی دوپہر دو بجے سے 24 اگست کی دوپہر دو بجے تک کے لیے انٹرنیٹ خدمات بند کر دی گئی ہیں، انتظامیہ نے احتیاط کے طور پر یہ فیصلہ لیا ہے، پولیس کے مطابق بگہا شہر کے مختلف علاقوں میں پولیس کے 500 جوانوں کو تعینات کیا گیا ہے۔ اس دوران پولیس کی بڑی تعداد کی موجودگی میں مورتی وسرجن بھی کر دیا گیا ہے۔ یہاں درجنوں افراد زخمی ہوئے ہیں۔ جس میں پولیس اہلکار اور صحافی بھی شامل ہیں۔ ایک خاص فرقے کے لوگوں کی دکانوں اور مکانوں کو فسادیوں نے نشانہ بناتے ہوئے نقصان پہنچایا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
حالات مزید خراب نہیں ہوں اس کو لے کر امن کمیٹی، پولیس انتظامیہ، ضلع انتظامیہ اور علاقے کے سماجی کارکنوں کی جانب سے امن و امان قائم کرنے کی پہل بھی کی جا رہی ہے کہ امن و شانتی برقرار رہے۔ وہیں دوسری طرف سکٹا اسمبلی حلقہ سے سی پی آئی ایم ایل کے رکن اسمبلی وریندر گپتا کی قیادت میں پارٹی اور انصاف منچ کی ایک ٹیم نے حقیقت جاننے کے لیے متاثرہ علاقے کا دورہ کیا ہے۔ رکن اسمبلی نے دورہ کے بعد پریس ریلیز میں کہا ہے کہ بی جے پی کے اشارے پر آر ایس ایس اور بجرنگ دل کے ارکان افواہیں پھیلا کر بگہا میں بدامنی پیدا کر رہے ہیں۔ یہ پوری طرح سے پولیس کی ناکامی ہے۔ اگر پولیس چاہتی تو ماحول کو کنٹرول کر سکتی تھی لیکن پولیس نے ایسا نہیں کیا، نریندر گپتا نے سوجھ بوجھ کا استعمال کرنے کے لیے بگہا کے عوام کا شکریہ ادا کرتے ہوئے مقامی رہنماؤں کے کردار کو مشکوک قرار دیا ہے۔
فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کا دورہ
سی پی آئی ایم ایل اور انصاف منج کی فیکٹ فائنڈنگ کی ٹیم نے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور دونوں فرقوں کے لوگوں سے ملاقات کرکے حالات کے تعلق سے جانکاری حاصل کی ہے۔ اس کے بعد ٹیم نے اپنی رپورٹ بھی جاری کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایم ایل اے وریندر پرساد گپتا نے کہا ہے کہ 2024 کے انتخابات کی تیاری میں یہ فرقہ وارانہ پولرائزیشن کی کوششوں کا حصہ ہے۔ یہ ایک کڑی ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ پولیس انتظامیہ کا رویہ بھی انتہائی ڈھیلا نظر آرہا ہے۔ جس کی وجہ سے فرقہ پرست طاقتوں کو حوصلہ مل رہا ہے۔ ان کی رپورٹ کے مطابق جلوس مقررہ روٹ سے نہیں نکالا گیا تھا اور انتظامیہ کا سکیورٹی نظام بھی انتہائی کمزور تھا۔