نئی دہلی: انجمن ترقی اردو ہند نے بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار کو خط لکھ کر بہار میں اردو کے ساتھ ہونے والی ناانصافی اور رفتہ رفتہ ختم کئے جانے کے سلسلے پر لگام لگانے اور اردو کی لزومیت برقرار رکھنے کی اپیل کی ہے۔
اس خط میں کہا گیا ہے کہ انجمن ترقی اردو ہند اس مکتوب کے ذریعے یہ واضح کرنا چاہتی ہے کہ بہار کی حکومت نے اردو کو پہلی اور لازمی زبان کے بجاے تیسری اور اختیاری زبان کے طور پر اسکولز کے تعلیمی نظام میں پڑھانے کا جو فیصلہ کیا ہے، وہ کسی طرح درست نہیں ہے۔
انہوں نے کہاکہ انجمن کا یہ موقف بھی ہے کہ اگر کوئی ایک شخص بھی کسی زبان کو اپنی مادری زبان قرار دیتا ہے، تو اس کے اس حق کا تحفظ کیا جانا چاہیے۔ یہ متعلقہ فرد کا نہ صرف آئینی حق ہے بلکہ انسانی حقوق کی موجودہ تعریف کے مطابق یہ اس زمرے میں بھی شامل ہے اور ریاست کا فرض ہر شہری کے انسانی حقوق کا تحفظ ہے، اس لیے،انجمن ان تمام بھارتی زبانوں کے بولنے والوں کے حق کی ہم نوا ہے جنہیں اردو کے ساتھ پہلی زبان کے بجاے تیسری زبان حکومتِ بہار کے ایک حالیہ حکم نامے کے ذریعے بنادیا گیا ہے۔
یہ خاصی حیران کُن بات ہے کہ آپ جیسا سرد و گرم چشیدہ شخص جس کی سیاسی زندگی کا خلقیہ ریاستِ بہار کے سیاسی و سماجی محرکات کے تابع ہے، آپ کے دورِ حکومت میں یہ فیصلہ کیا گیا۔ بہ حیثیت سیاست داں بہار میں آپ انجمن ترقی اردو ہند کے اس فیصلہ کن رول سے واقف ہیں جس نے صوبے میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دلوایا، اور یہ رول انجمن کی نہ صرف بہار بلکہ بھارت بھر کے اردو داں عوام میں مقبولیت کا غماز بھی ہے۔
یہاں اس امر کا ذکر بھی ضروری ہے کہ CABE کے 1949 کے فیصلے کے مطابق بچے کی مادری زبان ہی اسکول کے تعلیمی نظام میں اسے پہلی اور لازمی زبان کے طور پر پڑھائی جائے گی۔ حکومتِ ہند نے کبھی اپنے اس فیصلے سے رجوع نہیں کیا ہے، اس لیے، یہ قانونی حیثیت تبدیل نہیں ہوئی ہے اور موجودہ حکم نامہ اس کی خلاف ورزی ہے۔
انجمن افہام و تفہیم کے نہایت مہذب انداز کو شدید اختلافات کے معاملات میں بھی برقرار رکھتی ہے۔ امید ہے کہ ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی حکومتِ بہار اپنے فیصلے پر نظرِثانی کرنے کی ہماری درخواست کو قبول کرے گی۔
یہ خط پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی (صدر) پروفیسر اخترالواسع (رکن مجلسِ عاملہ)اطہر فاروقی (جنرل سکریٹری) نے مشترکہ طور پر لکھا ہے۔