سی اے اے، این پی آر اور این آر سی کا معاملہ بہار اسمبلی انتخابات میں میں ایک بڑا ایشو بنے گا، اس کی توقع سبھی کو تھی تاہم ایسا نہیں ہوا ہے۔
انتخابات سے قبل کہا جا رہا تھا کہ آرجے ڈی جہاں اسی بہانے اپنی سیاسی زمین کو مضبوط بنانے کی کوشش کرے گی تو وہیں برسراقتدار پارٹی کے لیے یہ احتجاج ایک مصیبت بن جائے گا، تاہم پہلے مرحلے کے دوران عظیم اتحاد آرجے ڈی، کانگریس اور بائیں بازو کی جماعتوں کے علاوہ دیگر سیکولر جماعتوں میں ہندوستانی عوام مورچہ وغیرہ این آر سی، سی اے اے اور این پی آر معاملے پر خاموش ہیں۔
سیکولر جماعتیں اس بات کو لے کر خاموش ہیں کہ کہیں یہ معاملہ الٹا ان پر ہی بھاری نہ پڑ جائے، حالانکہ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے رہنماء اسدالدین اویسی نے زندہ کر دیا ہے۔
اویسی این آر سی کے احتجاج اور مظاہرے کو بہار انتخابات میں اپنی طاقت بنانا چاہتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ انتخابی مہم کے دوران جلسوں میں اس کا تذکرہ بھی کرر ہے ہیں، حالانکہ اس سے قبل جن ادھیکار پارٹی کے قومی صدر راجیش رنجن عرف پپو یادو نے بھی انتخابی جلسوں میں این آر سی اور سی اے اے پر خطاب کیا تاہم وہ مضبوطی سے اپنی بات نہیں پہنچا سکے۔ جس کے نتیجے میں ان کا بیان سرخیوں میں نہیں آسکا۔
ای ٹی وی بھارت نے سی اے اے و این آر سی کے معاملے پر شہر گیا کے معززین سمیت سیاسی رہنماء اور غیر معینہ دھرنا میں شامل افراد سے بات کی تو ان کی اپنی اپنی رائے سامنے آئی۔
جماعت اسلامی کے امیر پروفیسر بدیع الزماں کہتے ہیں کہ، 'انتخابی ایجنڈا سیکولر جماعتوں کی طرف سے نہیں ہونا افسوسناک ہے۔ اگر ابھی یہ سی اے اے، این آرسی اور این پی آر پر بات نہیں کرتے ہیں تو پھر انتخابات کے بعد ان سے کیا امیدیں وابستہ ہوسکتی ہیں؟'
ان کا ماننا ہے کہ قریب چار ماہ کا مظاہرہ بیکار ثابت ہورہا ہے کم ازکم عظیم اتحاد کو اس پر مسلمانوں کو یقین دہانی کرانی چاہیے تھی۔