دراصل ضلع گیا کے دیہی علاقوں میں ایک کہاوت اور ڈائیلاگ ہے " سب سے اگاڑی، ہمار بیل گاڑی" لیکن آج کورونا وبا کی وجہ سے نافذ لاک ڈاؤن میں واقعی بیل گاڑی نے دیہی علاقوں کا پہیہ سنبھال لیا ہے۔ بیل گاڑی کی رفتار بھلے ہی تیز نہیں ہو تاہم گاؤں اور بازاروں کے کام کاج جو غریبوں اور مزدوروں سے جڑے ہیں اسے رکنے نہیں دیا ہے۔
لاک ڈاؤن کے دوران سڑکوں سے مال ڈھونے والی گاڑیاں غائب ہوئیں تو مویشیوں کے چارہ، راشن و سبزیاں اور عمارتوں کی تعمیر میں لگنے والے سامانوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پر منتقل کرنے میں دشواری ہونے لگی، جس کی وجہ سے دیہی علاقوں کے کام کاج متاثر ہونے لگے تھے۔ لیکن گاؤں کے لوگوں نے بھی اس پریشانی سے باہر نکلنے کے طریقے ڈھونڈ لئے اور انہوں نے بیل گاڑیوں کا سہارا لیا۔
اپنی ضروریات کے لیے سامانوں کو ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچانا شروع کر دیا۔ اس سے نہ صرف دیہی علاقوں کے باشندوں کو فائدہ ہورہا ہے بلکہ بیل گاڑی کے مالکان کو بھی روزانہ 500 سے 600 روپے کی آمدنی ہو رہی ہے اور انہیں لاک ڈاؤن میں ایک اچھا روزگار دستیاب ہوگیا ہے۔
بیل گاڑیوں سے کبھی جانوروں کا چارہ تو کبھی سیمنٹ تو کبھی راشن کے سامان لائے جارہے ہیں۔ گاؤں کی سڑکوں پر موٹر گاڑیوں کی رفتار رکی تو بیل گاڑی بنی سہارا، گیا میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے دیہی علاقوں کو جوڑنے والی اہم سڑکوں پر چند گاڑیاں ہی نظر آرہی ہیں حالانکہ مال گاڑی ہو یا سواری گاڑیاں ان پر پابندی عائد نہیں ہے، تاہم شرائط اور بندشوں کے ساتھ چلانے کی اجازت ہے۔
گاؤں میں کورونا کے پھیلتے پاؤں اور حکومت کی بندشوں کی وجہ سے سامان لے جانے کے لیے گاڑیوں کی کمی ہے۔ یہاں تک کہ بازاروں سے گاؤں تک چلنے والے آٹو بھی بند ہیں۔
ایسی صورتحال میں گاؤں کے لوگوں کو کافی پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے گاؤں کے لوگوں نے اس بیل گاڑی کا سہارا لیا، جسے دو دہائیوں قبل ہی دیہی باشندوں نے استعمال کے لیے بند کر دیا تھا۔
نیشنل ہائی وے 69 پر چل رہی بیل گاڑی خاص بات یہ ہے کہ یہ بیل گاڑی گاؤں کی کچی سڑک پر نہیں بلکہ نیشنل ہائی وے 69 پر چل رہی ہیں۔ گیا کے امام گنج سے شیرگھاٹی کو جانے والی سڑک پر ان دنوں درجنوں بیل گاڑی چل رہی ہیں، جس کی وجہ سے لوگوں کو کافی آسانی ہورہی ہے۔
امام گنج، بانکے بازار، ڈمراواں، شیرگھاٹی تک یہ بیل گاڑیاں چل رہی ہیں۔ بیل گاڑی سے گاؤں کے باشندے خصوصی طور پر راشن، مویشیوں کے لیے چارہ اور دیگر سامان ڈھوئے جارہے ہیں۔