اردو

urdu

ETV Bharat / state

بہار: ارریہ کی کہانی گردش زمانہ کی زبانی

بہار کا یہ ضلع سنہ 1199 کے بعد سے 1575 تک مسلم سلاطین کے زیر انتظام رہا، بختیار خلجی، علی مروان خلجی، غیاث الدین خلجی، فخر الدین سلاحدار وغیرہ نے اس ضلع پر حکمرانی کی ہے۔

متعلقہ تصویر

By

Published : Mar 21, 2019, 8:11 AM IST

ارریہ بہار کے 38ویں ضلاع کے طور پر جانا جاتا ہے۔ یوں تو پورا سیمانچل خستہ حال اور پسماندہ جیسے القاب سے ملک بھر میں شناخت رکھتاہے۔

پورنیہ سے علیحدہ ہونے کے بعد یہ ضلع تن تنہا اپنے حق کی لڑائی لڑتا رہا۔ یہ لڑائی گزشتہ 28 برسوں سے جاری ہے۔

ارریہ سے علیحدہ ہونے سے قبل پورنیہ ارریہ کی پیشانی کا تاج سمجھا جاتا تھا،مردم خیز، سرسبز اور شاداب تھا۔

لیکن اب لوگوں نے اسے فراموش کردیا۔ ارریہ کے ماضی کو دیکھا جائے تو اس ضلع میں مختلف ادوار میں مختلف حکمرانوں کی حکومت رہی۔ 6 صدی پہلے تک براٹ راج کا قبضہ تھا۔ اس کے بعد مگدھ حکومت، گپت خاندان، بدھ خاندان کے اسیر رہا۔

سنہ 660ء کے بعد یہ ضلع راجہ اجیت سین کے قبضہ میں آگیا۔ 9 ویں صدی تک پال راجاؤں اور سین راجاؤں کی حکومت رہی۔

یہ ضلع سنہ 1199ء کے بعد1575ء تک مسلم سلاطین کے قبضہ میں رہا اور بختیار خلجی، علی مروان خلجی، غیاث الدین خلجی، فخرالدین سلاحدار وغیرہ نے اس ضلع پر حکمرانی کی۔اس کے بعد بنگال کے نواب شجاع الدولہ کی حکمرانی بھی اس ضلع پر رہی۔

مغل بادشاہوں کے وقت پورنیہ بہار اور بنگال کا سرحد تھا۔1717ء میں بھارت میں جب انگریزوں کی حکومت آئی تب یہاں کے غیور جیالوں نے آزادی کی لڑائی میں اپنے جان تک نچھاور کر دیے ۔

مہاتما گاندھی، ڈاکٹر راجند پرساد، مولانا ابو الکلام آزاد،ڈاکٹر ذاکر حسین اور مولانا حسین احمد مدنی جیسے قائدین نے یہاں کے لوگوں کی رہنمائی کی ہے۔

اس ضلع کو سمجھنے کے لیے اگر اس کا جغرافیائی جائزہ لیا جائے تو یہ ضلع بہار کے دارالحکومت پٹنہ سے 350کیلو میٹر دور شمال کے خطہ سیمانچل میں واقع ہے۔ مشرق میں کشن گنج، مغرب میں سپول، شمال میں نیپال اور جنوب میں پورنیہ ہے۔

اس ضلع کے حدود میں دو سب ڈویزن ارریہ اور فاربس گنج آتا ہے۔2011میں مردم شماری کے مطابق اس کا رقبہ 2830میٹر پر پھیلا ہوا تھا جس میں رہائش پزیر لوگوں کی آبادی 28لاکھ11 ہزار569 ہے،جس میں مردوں کی تعداد14لاکھ 63ہزار333اور عورتوں کی تعداد 13 لاکھ 48 ہزار 236ہے۔

یہاں کے لوگوں کی تعلیمی شرح 53.53%ہے۔ اس کے اکثر کو بیشتر علاقے گاؤں ہیں۔اس لئے دیہی حلقہ کی آبادی 94فیصد جبکہ شہری آبادی چھ فیصد ہے۔

اس لحاظ سے میں، میرا شہری حلقہ صرف دو کیلو میٹرکے اندر محدود ہے۔ اس کے علاوہ ارریہ میں 9بلاک ،717گاؤں اور218 پنچایتیں ہیں۔ علاوہ ازیں ایک لوک سبھا اور چھ اسمبلی حلقہ( رانی گنج، فاربس گنج، ارریہ شہری حلقہ، جوکی ہاٹ، سکٹی اور نرپت گنج)ہے۔

اس ضلع میں بلا تفریق مذہب و ملت ہر جماعت کے لوگ آپسی محبت اور رواداری کے ساتھ رہتے ہیں۔اس لحاظ سے یہاں ہندوں کی آبادی ضلع کی آبادی کا 56.67%ہے،جبکہ مسلم آبادی 42.94%ہےْ دیگر مذہب کے ماننے والوں کی تعداد0.37%فیصد ہے۔(یہ اعداد و شمار 2011کے مردم شماری کے مطابق پیش کئے گئے ہیں،جس میں یقیناً تین سے چار فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔)

ضلع کے نظام کو بہتر رکھنے کے لیے دو ڈیویژن دیے گئے ہیں، ارریہ اور فاربس گنج۔دونوں جگہوں پر پولیس محکمہ کے اعلیٰ افسران مستعد رہتے ہیں مگر ضلع ہیڈکوارٹر کا درجہ ارریہ کو ہی حاصل ہے۔

یہاں ضلع کلکٹریٹ، سب ڈویزنل آفس،ضلع کورٹ، ضلع پریشد و نگر پریشد، ضلع پوسٹ آفس و دیگر اہم سرکاری دفاتر و متعلقہ افسران کے دفاتر بھی یہی قائم ہیں۔

سرکاری سطح پر جاری ہوئے سرکاری منصوبوں کے نفاذ کا کام یہی سے عمل میں آتا ہے۔ مجھے ترقی کی راہ پر لے جانا ضلع انتظامیہ کے لئے کسی چیلنچ سے کم نہیں۔ تاہم مجھے خوبصورت اور ترقی یافتہ بنانے کے لئے ضلع انتظامیہ کے پاس کئی منصوبے ہیں، ساتھ ہی وزیر اعلیٰ سات مقاصد منصوبہ پر مضبوطی کے ساتھ عمل کر رہی ہے۔

ضلع میں ہر مذہب و عقیدہ کے ماننے والے لوگ اپنی مخصوص لب ولہجہ او ر تہذیب کی وجہ سے الگ شناخت رکھتے ہیں۔بنگال سے متصل ہونے کی وجہ سے یہاں بہاری اور بنگالی دونوں زبان بولی جاتی ہے۔

قومی زبان ہندی ہر مقام پر بولی سمجھی جاتی ہے جبکہ اردو بہار کی دوسری زبان ہونے کی حیثیت سے سڑکوں، دفاتر اور گھروں میں عام ہے۔مگر یہاں مقامی زبانوں کا چلن زیادہ ہے ، کلہیا زبان، شیخرا زبان اور ٹھیٹھی زبان زیادہ بولی سمجھی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں میتھلی ، بھوجپوری، سورجا پوری زبان بھی رائج ہے۔

سیلاب: نیپال قریب ہونے سے ہر برس اس ضلع کو سیلاب کی مصیبت سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔اگست کے بعد سے ہی ضلع کے لوگوں پر سیلاب کا خطرہ منڈرانے لگتا ہے۔بارش، سیلاب اور کوسی کی مار سے یہاں رہنے والے سب سے زیادہ تباہ وبرباد ہوتے ہیں۔

لاکھوں کی آبادی سڑک پر زندگی بسرکرنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ ایک سیلاب کی مار سے ابرنے کی کوشش ہوتی تب تک دوسرے کا حملہ ہو جاتا ہے۔

سنہ 2017ء میں آئے ہولناک سیلاب کا منظر ابھی بھی یہاں کے لوگوں کے ذہنوں میں محفوظ ہے جس میں کئی گاؤں کے نام و نشان تک مٹ گئے۔

یہ آج تک کسی حکمراں نے اس جانب نہیں دیکھا اور نہ سماجی ماہرین و سماجیات اس پر توجہ دے سکیں۔کئی حکومت آئیں اور گئیں مگر میرے حال پر کسی کو ترس نہیں آیا اور نہ عام عوام کی زندگی میں خوش حالی کے لئے کوئی ٹھوس اقدام ہوئے۔

آمد و رفت کے ذرائع : ایک جگہ سے دوسری جگہ آمد ورفت کیلئے میں فور لین سڑک اور ریلوے لائن سے جڑی ہے۔ مگر بڑھتی آبادی کے سبب اب یہ بھی ناکافی ثابت ہورہا ہے۔ میرے حد میں داخل ہونے کے لئےاور ارریہ کورٹ ریلوے اسٹیشن کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ لائن ایک طرف کٹیہار ریلوے اسٹیشن کو جوڑتی ہے جہاں سے دوسرے مقامات کے لئے ٹرین ملتی ہے، جبکہ دوسری طرف یہ لائن جوگبنی تک جاتی ہے جو بھارت نیپال کا سرحد ہے۔

شہر سے ارریہ کورٹ کی دوری دوکیلومیٹر اور R.Sچار کیلومیٹر پر ہے۔ ارریہ کا مرکزی اسٹیشن ارریہ کورٹ ہی ہے۔

اس اسٹیشن سے دو سوپر فاسٹ ٹرین سیمانچل اکسپریس اور کلکتہ اکسپریس نکلتی ہے۔اس کے علاوہ لوکل کئی پیسنجر ٹرین کے طور پر چلتی ہے۔ ارریہ کورٹ اسٹیشن کے بارے میں ایک اہم انکشاف کرنا بھی ضروری ہے کہ یہ بھارت کا واحد ریلوے اسٹیشن ہے جو آج تک بغیر سگنل کی ہے،جو ٹرین یہاں سے گزرتی ہے رکنے اور کھلنے کی خود مالک ہوتی ہے،ٹرین خود سے آئی اورکچھ وقفے کے بعد خود سے چل پڑی۔

اسی طرح ہوائی سفر کے لئے سب سے قریب باگ ڈوگڑا ہوائی اڈہ ہے جو ارریہ سے 130کیلومیٹر کی دوری پر ہے۔جہاں سے دوسری جگہوں کے لئے ہوائی جہاز ملتی ہے۔

اہم مارکیٹ :روزمرہ کی چیزوں کی خرید وفروخت کے لئے یہاں کئی اہم مارکیٹ ہیں۔چاندنی چوک، زیرومائل، وکاس مارکیٹ، ہریالی مارکیٹ،اے ڈی بی چوک،بس اسٹینڈ، باپو مارکیٹ ہاسپٹال وغیر ہ پر لوگوں کی خاصی بھیڑ دیکھی جاسکتی ہے ،اس کے علاوہ کئی برانڈکے شو روم اور بینک بھی یہاں دستیاب ہیں۔ یہاں شام ہوتے ہی بازار کے حسن میں اضافہ ہوجاتا ہے۔مقامی لوگوں کی بھیڑ اس وقت زیادہ نظر آتی ہیں۔ شام ڈھلتے ہی چاندنی چوک کے قریب سبزی منڈی کا نظارہ قابل دید ہوتا ہے۔ یہ واحد سبزی منڈی ہے جہاں دوسرے مقامات سے سبزیوں کا امپورٹ اور ایکسپورٹ ہوتا ہے ۔ ایک اندازاہ کے مطابق یہاں روزانہ لاکھوں کی خرید فروخت ہوتی ہے۔

ہسپتال : عوام علاج کے لیے ایک صدر ہسپتال اور 9 پرپرائمری ہیلتھ سینٹر ہیں۔ اس کے علاوہ پرائیوٹ طور پر بھی کئی ہسپتال ہیں جو جدید سہولیات اور آلات سے لیس ہیں۔

روزانہ ہزاروں کی تعداد میں دور دراز سے مریض علاج و معالجہ کے لئے آتے ہیں ۔ مگرشہر کے بہ نسبت گاوں میں پرائمری ہیلتھ سینٹر کی حالات اچھے نہیں ہیں۔ کئی مراکز ایسے ہیں جہاں صرف خانہ پری ہوتی ہے، جس سے مقامی لوگوں کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

یہاں بلاتفریق ہر مذہب ومسلک کے ماننے والے لوگ ذات برادری سے اوپر اٹھ کر ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہتے ہیں۔ جس سے فرقہ وارانہ ماحول قائم نہیں ہوتا۔

قومی یکجہتی اور رواداری کا پیغام دینے میں یہاں کے لوگ پیش پیش رہتے ہیں۔ مذہبی امور، شادی بیاہ اور دیگر کاموں میں بھی ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں۔ یہاں مسلموں کے لئے چاندنی چوک سے قریب جامع مساجد اور غیر مسلموں بھایؤں کے لئے کالی مندر،شیو مندر اور عیسائی بھائیوں کے لئیچرچ عبادت وریاضت کی اہم جگہ ہے جہاں بڑی تعداد میں عقیدت مند پہنچتے ہیں ۔ تہواروں کے موقع پر سب ایک ساتھ مل کر ایک دوسرے سے خوشیاں بانٹتے ہیں۔

یہاں بایو ڈائورسٹی پارک اور واٹیکا پارک بھی ہے۔ جہاں قرب وجوار اور دوسرے اضلاع سے تفریح کے لئے لوگ اہل خانہ کے ساتھ آتے ہیں ۔ یہاں شام کے وقت میں سیاحوں کی خاصی بھیڑ جمع ہوتی ہے۔اس کے علاوہ سنیما گھر، سبھاش اسٹیڈیم بھی تفریح کا مرکز ہے۔ باہر سے آنے والے سیاحوں کے لئے ٹھہرنے کے لئے اچھے ہوٹل کا بھی نظم ہے جن میں پنار ہوٹل ، ہوٹل پریسیڈنٹ،ہوٹل ایور گرین، ہوٹل ملنیم وغیرہ شامل ہیں۔

تاریخی ورثہ۔قدیم زمانے کے بہت سے آثار قدیمہ اور تاریخی عمارتیں آج بھی ضلع کی خوبصورتی میں چار چاند لگاتے ہیں۔

مغل زمانے کا یہ تاریخی مسجد فرکیہ جو1717ء سے پہلے کی ہے۔جسے یہاں کی عوام جنگل والی مسجد کے نام سے بھی جانتے ہیں، اس زمانے میں یہ حسین اور خوبصورت مسجد پھولوں سے مہکتی معطر ہوا کرتی تھی مگر آج ویران نظر آتی ہے۔ ان انمٹ نقوش کو میں کیسے بھول جاوں جو مسلمانوں کی ایک شان ہوا کرتی تھی ۔

تعلیمی ادارے ۔تعلیمی اعتبار سے مجھے کافی پسماندہ کہا جاتا ہے مگر اب حالت بہتر ہو رہی ہے۔ عوام تعلیم کی اہمیت و افادیت کو دیکھتے ہوئے اپنے بچوں کو اس جانب راغب کر رہے ہیں۔ تعلیم کے لئے یہاں سرکاری و غیر سرکاری ادارے بڑی تعداد میں قائم ہے۔یہاں سرکاری سطح پر 2121پرائمری اسکول،141مڈل اسکول،95مڈل سے ہائی اسکول میں اپ گریڈ،44ہائی اسکول،42ہائی اسکول سے +2میں اپ گریڈاور مائنوریٹی کے لئے ایک اسکول آزاد اکیڈمی ہے۔

جبکہ غیر سرکاری طور پر السبیل اکیڈمی، کیرئیر گائید اکیڈمی، آئدیل اکیڈمی، ارریہ پبلک اسکول، اسٹرن پبلک اسکول، المنار ایجوکئیرو طالبات کے لئے خصوصی طور پر کلیات الصالحات جیسے چھوٹے پڑے تقریبا600 اسکول قائم ہیں۔

اس کے علاوہ یہاں بڑے تعلیمی اداروں میں ارریہ کالج، ال شمس ملیہ کالج،ایم بی آئی ٹی انٹر نیشنل کالج اور فوربس گنج کالج موجود ہے ۔ مگر المیہ یہ بھی ہے کہ یہاں اب تک ایم اے کا شعبہ نہیں ہے جس سے اعلیٰ تعلیم کے لئے طلبا کودوسرے اضلاع کا رخ کرنا پڑتا ہے۔

ادب۔ ارریہ ادبی سطح پر کافی فعال ہے۔اس ضلع میں اردو، ہندی کے کئی بڑے ادباء نے آنکھیں کھولی۔ جس میں سرفہرست فنشور ناتھ رینوہیں۔ فنیشور ناتھ رینو کا شمار ہندی ادب میں قومی سطح پر ہوتا ہے۔ ان کی کہانی پر کئی ساری فلم بنی ہے،جن میں 'تیسری قسم' کافی مقبول ہوئی ہے۔

میلا آنچل پر انہیں پدم شری سے بھی نوازاگیا۔اس کے علاوہ یہاں کے ادب و ثقافت کے منظر نامہ پر وفاملک پوری،مولانا عبدالوحیدثاقب،بسنت کمار رائے،کملا پرساد سنگھ، طارق جمیلی ،پروفیسر محمد ظہیر الدین،نول کشور داس، پروفیسر محمد اشتیاق،انجم مہتاب، مولانا عیسی فرتاب، مظہر القیوم، زبیر الحسن غافل،بھولا پنڈت ،شاذ رحمانی، ہارون رشید غافل، مشتاق احمد نوری،دین رضا اختر،رضی احمد تنہا، حقانی القاسمی،رہبان علی راکیش، جیسے مشاہیر ادب کا نام نمایاں ہیں۔

صنعت: یہاں کی زمین بہت ساز گار ہے، جس سے اچھی فصلیں تیار ہوتی ہے۔ضلع کے 70فیصد سے زائد عوام کھیتی باڑی اورکاشت کاری پر منحصر ہے ،یہاں کی اہم پیداوار میں مکا ا،دھان، گیہوں اور جوٹ ہے۔ روزگار کے لئے یہاں کسی بڑے صنعت کا نہ ہونا افسوس ناک ہے جس سے لوگوں کو روزگار کے لئے دوسری ریاستوں کا سفر کرنا پڑتا ہے۔

سیاست: معاشی طور پر کمزور اور پسماندہ ہونے کے باوجود اس کے سیاسی اعتبار بہت حساس ہیں۔ یہاں کی سیاست سیمانچل کی سیاست کی پہچان ہے ساتھ ہی بہار کی سیاست میں اہم رول ادا کرتا ہے۔

یہاں سے کئی بڑے سیاسی قدآور لیڈران پیدا ہوئے جن میں جمیل الرحمن، رفیق عالم،یٰسین ایڈوکیٹ،حلیم الدین، ڈومر لال بیٹھا، محمد تسلیم الدین، سکھدیو پاسوان، معیدالرحمن،محمد عظیم الدین، سرفراز عالم ، عابد الرحمن،آفتاب عظیم وغیرہ کا تعلق اسی ضلع سے ہے۔ یہ اسما قابل ذکر ہیں۔

ان میں محمد تسلیم الدین عرصہ دراز تک یہاں کی سیاست پر حاوی رہیں۔ ان کی مقبولیت ہرطبقہ میں یکساں تھی۔ تسلیم الدین کو سیمانچل کی عوام سیمانچل گاندھی کے لقب سے یاد کرتی ہے۔

دینی ادارہ و تنظیمیں۔ یہاں عصری تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم کا رجحان زیادہ ہے، اوسط طبقہ اپنے بچوں کو تعلیم کے لئے دینی اداروں میں بھیجنا پسند کرتے ہیں۔جس وجہ سے یہاں کافی تعداد میں دینی ادارے موجود ہیں ۔

اس کے علاوہ دینی، ملی، رفاہی تنظیموں کے ذیلی دفاتر بھی موجود ہیں جو مذہبی معاملات میں مسلمانوں کے مسائل حل کرتی ہے۔ امارت شرعیہ کا دارالقضاء، جماعت اسلامی ہند، جمعیت علماء ہند وغیر ہ کے نام اہم ہے۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details