بہار کے وزیر اعلیٰ کے طور پر ساتویں بار حلف لے رہے نتیش کمار کو اقلیت کے خیر خواہ، ہمدرد اور ایک سیکولر ذہن کے طور پر جانا جاتا ہے لیکن باوجود اس کے ایک بھی مسلم نمائندہ کو نتیش کابینہ میں جگہ نہیں ملنے سے یہ موضوع بحث بنا ہوا ہے اور لوگ مختلف ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں۔
مخالف پارٹی بھی اسے نتیش کمار کی دوہرے معیار کی پالیسی قرار دے رہے ہیں. ارریہ کی عوام نے بھی نتیش کمار کی مذکورہ کابینہ پر حیرت کا اظہار کیا ہے، حد تو یہ ہے کہ محکمہ اقلیتی فلاح میں بھی کسی مسلم وزیر کے بجائے غیر مسلم کو جگہ دیے جانے پر دانشوران نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔
نتیش کابینہ میں مسلم وزرأ کو شامل کرنے کا مطالبہ مدرسہ اسلامیہ یتیم خانہ کے استاذ مفتی انعام الباری قاسمی نے کہا کہ نتیش کمار کی شبیہ ایک غیر جانبدار اور ترقیاتی شخص کے طور پر ہے اور گزشتہ پندرہ برسوں میں بہار بالخصوص محکمہ اقلیتی شعبے میں نمایاں کام انجام دیے گئے ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ جمہوریت میں سب چیزیں خواہش کے مطابق نہیں ملتی، یہ الگ بات ہے کہ اس بار کے اسمبلی انتخابات میں جے ڈی یو کے ایک بھی مسلم نمائندے کو جیت نہیں ملی لیکن باوجود اس کے نتیش کمار کو دیگر لوگوں کے ساتھ مسلم نمائندہ کو بھی کابینہ میں جگہ دینی چاہیے تھی کیونکہ اس سے آنے والے دنوں میں ایک مثبت اور واضح پیغام جاتا۔
جمعیۃ علما ہند ارریہ کے سکریٹری مفتی ہمایوں اقبال ندوی نے کہا کہ یہ نتیش کمار پر منحصر ہے کہ وہ کسی بھی مسلم نمائندہ کو کابینہ میں جگہ دیتے ہیں یا نہیں، جب نتیش کابینہ میں دلت، بھومیہار، یادو، راجپوت، اور انتہائی پسماندہ ذات سے تعلق رکھنے والے امیدوار شامل ہو سکتے ہیں تو پھر مسلم امیدوار کیوں نہیں؟ نمائندگی کے لئے یہ شرط نہیں ہے کہ وہ جیت کر آئے، مکیش سہنی شکست کھانے کے بعد وزیر بنائے گئے ہیں۔
صحافی عبد الغنی نے کہا کہ شعبے سے منسلک افراد کو ذمہ داری ملتی ہے تو کام بہتر انداز میں ہوتا ہے، اقلیتی فلاح کا شعبہ کسی مسلم نمائندہ کو ہی دیا جانا چاہیے کہ وہ اس کی باریکی کو بہتر انداز میں سمجھ سکتے ہیں۔
عبدالغنی نے مزید کہا کہ جے ڈی یو میں ابھی کئی قابل لوگ موجود ہیں جنھیں یہ وزارت سونپی جاسکتی ہے۔