فیاض وانی(حیدرآباد): 6 دسمبر سنہ 1992 کا دن کشمیر کی گزشتہ چار دہائیوں کی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ اس روز سوپور میں ایک سانحہ پیش آیا جس میں تقریباً 57 عام شہری ہلاک جبکہ 400 سے زائد رہائشی و تجارتی عمارات اور وومنز کالج سوپور راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہوگیا۔Civilian Killed In Sopore In 1993
دراصل سوپور میں6 جنوری کو اقبال مارکیٹ میں بی ایس ایف کی 94 بٹالین پر عسکریت پسندوں نے حملہ کیا۔ اس دوران عسکریت پسندوں نے علاقے کی سلامتی کیلئے تعینات سرحدی حفاظتی فورس یا بی ایس ایف کے اہلکاروں سے ہیتھار بھی چھیننے کی کوشش کی۔ بی ایس ایف نے عسکریت پسندوں کو خلاف جوابی کارروئی کی اور اس دوران علاقہ میں کئی گھنٹوں تک فائرنگ کی آواز سنائی دی گئی۔Militants Attack 94 BSF in Sopore on 6 jan 1993
مقامی لوگوں کے مطابق اس حملے کی جوابی کارروائی میں 57 عام شہریوں کو گولیوں سے ہلاک کیا گیا جبکہ ایک بازار میں آگ لگائی گئی جس میں کئی افراد زندہ جل گئے۔ متاثرین کے مطابق بی ایس ایف نے ایک ایس آر ٹی سی گاڑی جو کپواڑہ سے سوپور کی طرف آر ہی تھی میں سوار مسافروں پر اندھا دھند گولیاں برسائیں، جس کے نتیجے 20 مسافرین موقع پر ہی ہلاک ہوئے تھے۔SRTC Bus Set Fire In Sopore Passengers Killed
عینی شاہدین کے مطابق بی ایس ایف کے جوانوں نے اس کے بعد آس پاس کی کئی عمارتوں، دکانوں اور مکانات پر گن پاؤڈر اور پیٹرول چھڑک کر انہیں نذر آتش کر دیا۔ اس آتشزدگی کے واقعے میں شلپورہ، شاہ آباد، مسلم پیر، کرالہ ٹینگ اور آرم پورہ علاقے راکھ کی ڈھیر میں تبدیل ہوگئے۔ آگ کی وارادت میں تقربیاً 400 سے زائد رہائشی و تجارتی عمارتیں تباہ ہوئیں۔ Fire Set On Shops And Residential Houses In 1993
کئی گھنٹوں تک علاقہ میں پُرتشدد بازار گرم رہا اور حکام نے رات گئے تک قصبہ کو فوج کے حوالے کیا۔ دوسرے روز لاشوں کو اکٹھا کیا گیا اور نشاندہی کرنے کے بعد انہیں سپرد لحد کر دیا گیا۔ اس واقعے کے بعد کشمیر میں ایک خوف کا ماحول پیدا ہوا ۔لوگوں نے اس کے خلاف احتجاج کیے اور اس میں ملوث بی ایس ایف بٹالین کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ عوامی دباؤ کے تحت اسوقت کی گورنر انتطامیہ نے بی ایس ایف کی 94 ویں بٹالین کے کمانڈنٹ کو پانچ دیگر اہلکاروں سمیت معطل کیا اور 9 جنوری کو واقعے کی جوڈیشیل انکوائری کے احکامات بھی صادر کیے گئے۔inquiry On Sopore Massacre 1993
30 جنوری کو اس انکوائری کے لیے جسٹس امرسنگھ چودھری کو تحقیقاتی آفیسر مقرر کیا گیا۔دو سال گزر جانے تک جسٹس امرسنگھ نے سرینگر دورہ مختلف وجوہات کی بنا پر مؤخر کیا اور گواہوں اور افسران سے اس واقعے کے متعلق بیانات قلمبند نہیں کیے جس کے بعد اس واقعہ کی تحقیقات نہیں ہوسکی اور بالآخر اس کمیشن کو تحلیل کر دیا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ بعد میں ایک سب انسپکٹر اور دو اسسٹنٹ سب انسپکٹروں کو معطل کیا گیا جبکہ 94 بٹالین کو سوپور سے ہٹاکر پلوامہ تبدیل کیا گیا،بعد میں اس بٹالین کو راجستھان منتقل کر دیا گیا۔ اس سانحہ سے متعلق دو کیس پولیس اسٹیشن سوپور میں درج کیے گئے تھے اور وہاں سے انہیں تحقیقات کے لئے سی بی آئی کو سونپا گیا۔