بارہمولہ (جموں و کشمیر) :شمالی کشمیر کے سوپور علاقے سے تعلق رکھنے والا 19 سالہ نوجوان فوٹو جرنلسٹ جی 20 میٹیگ کے ایک روز قبل شہر خاص کے لال چوک میں اپنے فرائض انجام دینے کے دوران اُس وقت بینائی سے محروم ہوگیا جب صحافی ایک خبر کو اپنے کیمرہ میں قید کرنے کے بعد دفتر کی طرف جا رہا تھا، اسی دوران لال چوک میں ایک گڑھے میں جا گرا جس کے سبب وہ بینائی سے محروم ہو گیا۔ ایک مقامی روزنامہ کے ساتھ کام کرنے والا بلال احمد بٹ نامی نوجوان صحافی کا کہنا ہے کہ ’’یہ حادثہ رات کے ساڑھے دس بجے کے آس پاس پیش آیا جب میں جی 20 کے حوالے سے ایک پروگرام مکمل کرنے کے بعد اپنے دفتر واپس لوٹ رہا تھا تب یہ حادثہ پیش آیا۔‘‘ بلال کے مطابق ’’حادثہ کے بعد مجھے کچھ معلوم نہیں کہ میرے ساتھ کیا ہوا۔‘‘
بلال کا کہنا ہے کہ ’’یہ گڑھا سرینگر کے بسکو اسکول کے پاس میں ہی تھا لیکن انتظامیہ کی غفلت شعاری کی وجہ سے اس گڑھے کو مکمل طور بند نہیں رکھا گیا تھا جس کے چلتے رات کے دوران میں اس میں جا گرا اور دونوں آنکھوں کی بینائی چلی گی اور اس کے ساتھ ساتھ میرے دو کمیرے، دو موبائل فون بھی تباہ ہو گئے۔‘‘ بلال کا کہنا ہے کہ ’’حادثہ کے بعد مجھے اپنے رفقاء نے نزدیکی ہسپتال منتقل کیا جہاں ڈاکٹروں نے کہا کہ ’آپ کی آنکھوں میں بینائی نہیں رہی‘۔‘‘ بلال کے مطابق ’’جب ڈاکٹروں نے مجھے کہا کہ ’آپ کی بینائی چلی گئی‘ تب میرے اور گھر والوں پر قیامت ٹوٹ پڑی۔‘‘
اس افسوسناک واقعے کو یاد کرتے ہوئے بلال نے کہا کہ وہ سری نگر اسمارٹ سٹی کے رات کے نظارے کا احاطہ کر رہے تھے ’’کوریج مکمل کرنے کے بعد، میں شہر کے مرکز لال چوک میں ایک تعمیراتی جگہ کے قریب سے گزر رہا تھا، اندھیرے میں اچانک پانی سے بھرے ایک گڑھے میں گر گیا جہاں میں کم از کم 10 سے 15 منٹ تک لوگوں کو مدد کے لیے پکارتا رہا۔ میرا ساتھی مجھے بچانے کی کوشش میں گڑھے میں کود پڑا۔ تاہم، وہ مجھے گڑھے سے باہر نکالنے میں ناکام ہو گیا اور اسی وقت ایک سومو ڈرائیور وہاں سے گزرا اور اس نے مجھے باہر نکالا۔‘‘ بلال نے مزید کہا۔ ’’مجھے ایس ایم ایچ ایس ہسپتال سری نگر منتقل کیا گیا جہاں میرے زخمی جسم کی مرہم پٹی کی گئی اور آنکھوں کے علاوہ جسم کے کئی حصے بری طرح زخمی ہوئے تھے۔‘‘
بلال کا کہنا ہے ہک ان کے اہل خانہ کو اگلی صبح حادثے کا علم ہوا اور انہوں نے بلال کو نوگام کے ایک نجی اسپتال پہنچایا جہاں ڈاکٹروں نے انہیں بتایا کہ ان کی دائیں آنکھ کو کافی نقصان پہنچا ہے۔ ’’ڈاکٹر نے بتایا کہ صدمے اور تناؤ کی وجہ سے بینائی متاثر ہو سکتی ہے چند دنوں میں صحتیابی کی امید ہے۔‘‘ اہل خانہ نے معروف ماہر امراض چشم کے ساتھ بھی رابطہ قائم کیا جنہوں نے ادویات اور ٹیسٹ تجویز کیے جس کی رپورٹ آنی ابھی باقی ہے۔ فوٹو جرنلسٹ کا کہنا ہے کہ دفتر کے عملہ اور خیر خواہوں نے ان کی ممکنہ مدد کی، لیکن ’’افسوسناک بات‘‘ ہے کہ انتظامیہ کی طرف سے کسی نے بھی ان کے بارے میں دریافت نہیں کیا اور نہ ہی مدد کے لیے آگے آئے۔