مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ فائرنگ کی وجہ سے لوگوں میں ہمیشہ خوف طاری رہتا ہے، اس خوف نے ان کی زندگیوں کا چین، سکون چھین رکھا ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ سرحد پر کشیدگی اور فائرنگ روز مرہ کا معمول بن چکا ہے۔
علاقے میں گزشتہ روز ہوئی فائرنگ میں کئی مکانات تباہ ہو گئے ہیں۔ ایک مقامی طالبہ نے کہا کہ گزشتہ تین ماہ سے اسکولز بند پڑے ہیں جس کی وجہ سے انکی پڑھائی بھی متاثر ہوئی ہے۔
اوڑی میں پاکستانی فوج کی فائرنگ سے لوگوں میں خوف حاکم علی نامی ایک مقامی باشندہ نے کہا کہ بچپن سے ہی انہوں نے گولہ باری کی آوازیں سنی ہیں اور ان کی خوشیاں اور ہنسی اس گولہ باری نے پہلے ہی چھین لی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم یہاں کیسے بچ جاتے ہیں وہ اللہ ہی جانتا ہے۔اللہ کی حفاظت کے بغیر اور کون ہے ہمارا۔ اللہ ہی ہماری حفاظت کر رہا ہے۔ حکومت اور انتظامیہ کوئی خاص توجہ دیتی ہی نہیں ہے۔ مقامی باشندہ نے کہا کہ دونوں ممالک کے حکمرانوں کو آپس میں بات چیت کر کے مسائل کو حل کرنا چاہیے۔ مقامی لوگ الزام عائد کر رہے ہیں کہ حکومت بنکرز بنانے کے لیے سنجیدہ اقدامات نہیں اٹھا رہی ہیں۔ انہوں نے انتظامیہ سے اپیل کی ان کی حفاظت کے لیے رہائشی بنکر تعمیر کیے جائیں۔
واضح رہے کہ سنہ 2003 میں دونوں ممالک کے درمیان لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کا معاہدہ ہوا تھا۔ اس کے بعد بھی دونوں ممالک ایک دوسرے پر معاہدے کی خلاف ورزیوں کے الزامات عائد کرتے رہے ہیں۔
مرکزی حکومت نے 5 اگست کو جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والی آئینی شق 370 کا خاتمہ کرکے مرکز کے دو زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ مرکزی حکومت کے اس فیصلے کے بعد لائن آف کنٹرول پر کشیدگی دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔