نئی دہلی: خواتین سماج کا ایک اہم حصہ ہیں، اس کے باوجود انہیں کئی طرح کی عدم مساوات، استحصال اور گھریلو تشدد کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ اسی کے پیش نظر ہر سال 25 نومبر کو خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کا بنیادی مقصد خواتین کے خلاف تشدد کو روکنا اور خواتین کو بااختیار بنانا ہے۔ اس وقت بہت سی خواتین ایسی ہیں جنہوں نے استحصال اور تشدد کے بعد خود کو مضبوط عورت بنایا ہے۔ افروزہ بانو بھی ایسی ہی ایک مثال ہیں۔
ایک وقت تھا جب افروزہ بانو اپنے دو چھوٹے بچوں کے ساتھ ٹین شیڈ کے نیچے رہنے پر مجبور تھی۔ آج اس کا اپنا گھر ہے۔ جہاں وہ دوسری مصیبت زدہ خواتین کو بااختیار بنانے کی طاقت دیتی ہے اور وہ خود کا کاروبار بھی چلاتی ہے۔ انہوں نے قومی دارالحکومت دہلی میں منعقدہ 42ویں انڈیا بین الاقوامی تجارتی میلے میں روزی روٹی کمانے کے لیے ایک اسٹال لگایا ہے۔ وہ ایک سیلف ہیلپ گروپ کی رکن ہے۔ اس میں کشمیری اون کی شالیں، سوٹ اور چوریاں فروخت ہوتی ہیں۔
جموں و کشمیر کے بارہمولہ ضلع کی رہنے والی 34 سالہ افروزہ بانو نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہیں بچپن سے ہی کامیاب خواتین بنانے کا شوق تھا۔ بچپن میں وہ اپنے گاؤں کے بچوں کو اکٹھا کرتی تھی اور خود ایک ماڈل بنتی تھی۔ غربت کی وجہ سے وہ اپنی اسکولی تعلیم مکمل نہ کرسکی۔ ان کے خاندان میں پانچ بہنیں اور ایک بھائی ہیں۔ باپ ایک مزدور تھا، جس پر خاندان کی دیکھ بھال کا بوجھ تھا۔ یہ سب دیکھ کر میں نے کاروبار کرنے کا سوچا ہے۔
دہلی آنے کا سفر: 2005 میں بارہمولہ گاؤں میں ایک این جی او نے خواتین کو کپڑے بیچنے کی تربیت دینا شروع کی۔ افروزہ نے بھی ٹریننگ میں حصہ لیا۔ اسی دوران کچھ عرصہ تربیت کے بعد انہیں دہلی آنے کا موقع ملا۔ جب اس نے اپنے گھر والوں کو اس بارے میں بتایا تو سب نے اسے( دہلی) بھیجنے سے انکار کر دیا۔ وہ ہمت نہیں ہاری اور کوشش کرتی رہی۔ آخر کار اس کے والد نے اسے دہلی جانے کی اجازت دے دی۔ یہ سن کر گھر کے دوسرے لوگ بہت غصے میں آگئے اور انہوں نے افروضہ سے بات کرنا بند کر دی۔
کملا دیوی ایوارڈ ملا: بانو نے بتایا کہ دہلی آنے کے بعد انہوں نے کپڑے خوب بیچے۔ اس کے لیے انہیں 2005 میں پرگتی میدان میں کرافٹ کوشل کی طرف سے کملا دیوی ایوارڈ دیا گیا تھا۔ اس کامیابی کے بعد اس نے گھر کے تمام افراد کو سمجھایا کہ کاروبار کرنے سے خاندان کی مالی حالت بہتر ہوگی۔ کوئی بھی ان سے راضی نہ ہوا اور 2012 میں ان کی شادی ہوگئی لیکن جدوجہد جاری رہی۔