جموں و کشمیر میں جاری پہلے ضلع ترقیاتی کونسل انتخابات میں جہاں روایتی سیاسی جماعتیں مدمقابل ہیں۔ وہیں چند نوجوان اور دلچسپ امیدوار بھی اپنی قسمت آزما رہے ہیں۔
ڈی ڈی سی انتخابات: نوجوان صحافی انتخابی میدان میں انہی امیدواروں میں سے ایک شمالی کشمیر کے ضلع بارہمولہ کے پٹن کے رہنے والے حامد راتھر بھی ہیں۔
حامد نے صحافت کی ماسٹر ڈگری سینٹرل یونیورسٹی آف کشمیر سے حاصل کی ہے اور وہ اپنا ویب پورٹل چلا رہے تھے۔ صحافت کے علاوہ 31 سالہ حامد نے اردو اور پبلک ایڈمنسٹریشن میں ایم اے بھی کیا ہے۔
اگرچہ حامد کا مستقبل اعلیٰ تعلیم کی وجہ سے چمکتا دکھائی دے رہا تھا لیکن انہوں نے ڈی ڈی سی انتخابات لڑنے کا فیلصہ کیا ہے۔ آزاد امیدوار کی حیثیت سے وہ گزشتہ تین ہفتوں سے ڈی ڈی سی حلقہ پٹن میں اپنی انتخابی مہم چلانے میں مشغول ہیں۔
حامد پٹن میں ہی پیدا ہوئے ہیں اور صحافت کرنے کے دوران انہوں نے اپنے علاقے میں لوگوں کو درپیش مشکلات کو قریب سے دیکھا ہے اور اپنے ویب پورٹل پر اس کے متعلق رپورٹ بھی شایع کی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ 'لوگوں کی مشکلات کو دیکھ کر انہوں نے طے کیا کہ وہ انتخابی میدان میں اپنی قسمت آزمائی کریں گے اور اگر وہ کامیاب ہوئے تو ان کی مشکلات حل کرنے میں کلیدی رول اد کریں گے۔'
اگرچہ حامد کا مقابلہ پیپلز الائنس فار گپکار ڈکلریشن کے امیدوار سے ہیں جس کو بڑی سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل ہے۔ تاہم وہ پر امید ہیں کہ لوگ ان کی حمایت کریں گے-
ان کا کہنا ہے کہ 'انتخابی مہم کے دوران پٹن علاقے کے لوگوں نے ان کی حمایت کی ہے اور محبت کے ساتھ پیش آرہے ہیں۔'
کشمیر میں انتخابی مہم کے دوران سکیورٹی کے خدشات بھی پائے جاتے ہیں لیکن حامد کا کہنا ہے کہ 'مقامی لوگوں کی حوصلہ افزائی اور محبت کی وجہ سے وہ میدان میں اترے ہیں اور ان کو کوئی خطرہ بھی درپیش نہیں ہے۔'
کشمیر میں نامساعد حالات ہونے کی وجہ سے تعلیم یافتہ افراد کی انتخابات کی طرف کم دلچسپی دیکھی جارہی ہے لیکن حامد جیسے نوجوانوں کا ماننا ہے کہ انتخابات میں حصہ لینے سے وہ اپنے علاقے کے روز مرہ کے مسائل حل کرنے میں اپنا رول ادا کر سکتے ہیں اور لوگوں کو روایتی سیاسی جماعتوں کا متبادل بھی دے سکتے ہیں۔