کشمیر کے سیب ٹرکوں کے ذریعے ملک بھر کی منڈیوں میں بھیجا جاتا ہے جس سے باغبانوں کی مالی حالت کے علاوہ کشمیر کی اقتصادی حالت بھی مستحکم ہوتی تھی۔
لاک ڈاؤن: سیب کاشتکاروں کو زبردست مشکلات کا سامنا کشمیر میں ماہ اکتوبر سے سیب کی کاشت کا آغاز ہوتا ہے۔ لیکن گزشتہ برس پانچ اگست کے بعد سرکار کی طرف سے بندشوں کی وجہ سے سیب کاشتکاروں کو زبردست دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے انکی مشکلات میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
کشمیر کے کولڈ سٹورز میں لاکھوں ٹن سیب یوں ہی بے کار پڑے ہیں جس سے سیب مالکان روزانہ نقصان سے دوچار ہو رہے ہیں۔ اس نقصان نے انکو ذہنی اور مالی پریشانیوں میں مبتلا کر دیا ہے۔
ضلع بارہمولہ کے سنگرامہ کے کولڈ سٹورز میں کروڑوں مالیت کے قریب سیب کی پیٹیاں بند پڑی ہیں۔ کاشتکاروں نے سرکار سے اپیل کی ہے کہ موجودہ حالات کو نظر میں رکھتے ہوئے نہ صرف انہیں اس میوے کو باہر کی منڈیوں تک لے جانے کے لیے محفوظ راہداری فراہم کی جائے بلکہ بینک قرضوں میں بھی ریعات دی جائے۔
وادی میں چند سال قبل ہی کولڈ سٹوریج کو بھی بنیادوں پر اس لیے متعارف کرایا گیا تاکہ یہاں پے اگانے والے مختلف اقسام کے سیب ان میں رکھے جائیں جس سے نہ صرف میواصنعت سے جوڈے لوگوں کو اس سے فائدہ ہو بلکہ یہ سیب بیرونی ریاست لوگوں کو کافی دیر تک فراہم رہ سکھے ۔
لوگوں کا ماننہ ہے کہ لاک ڈاؤن کے چلتے کولڈ سٹوریج میں پڑے سیبو کو وادی کے مختلف بازاروں میں ہی فراہم رکھا جائے جس سے نہ صرف باغ مالکان کو فائدہ مل سکھتا ہے بلکہ اس آف سیضن میں کشمیری عام کو تازہ اور لذیذ سیب خانے کو ملے ۔
واضح رہے کہ میوا صنعت وادی کی معیشت میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے اور تقریبا 70 فیصد آبادی بل واستہ یا بلا واستہ طور پر اس صنعت سے جوڈی ہیں ۔