جموں و کشمیر میں ہندو مسلمان اور سکھ ہمیشہ سے ہی ایک ساتھ رہتے آئے ہیں اور انہوں نے پوری وادی میں بھائی چارے کی مثال بھی قائم کی ہے۔ سنہ 1990 کی دہائی میں کشمیر میں نامساعد حالات کے باعث یہاں کے امن وامان میں خلل پیدا ہوگیا، جس کی وجہ سے متعدد پنڈتوں نے وادی کشمیر سے نقل مکانی کی۔
بارہمولہ میں مسلمان اور سکھ مندروں کی دیکھ ریکھ کر رہے ہیں پنڈتوں کی نقل مکانی کے بعد وادی میں رہائش پزیر ہندوؤں کے مذہبی مقامات کی دیکھ ریکھ نہ ہونے کے سبب یہ ویران ہوگئے۔
شمالی کشمیر کے بارہمولہ ضلع میں کئی مندر ابھی بھی موجود ہیں جہاں ان مندروں کی حفاظت یہاں پر بسنے والے مسلمان اور سکھ ایک ساتھ کرتے ہیں۔ بارہمولہ قصبہ کے کانلی باغ اور خانپورہ میں ہزاروں سال پرانی شیولنگ ابھی بھی موجود ہے جس کی حفاظت یہاں کے مسلمان اور سکھ کررہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: دیپیکا راجاوت کے خلاف مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا مقدمہ درج
کانلی باغ کے ایک گردوارے میں 11 فُٹ لمبی شیولنگ کی حفاظت یہاں کے مقیم کر رہے ہیں۔ ایک مقامی شخص نے ای ٹی وی بھارت کے نمائندے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس علاقے میں مسلمان اور سکھ رہتے ہیں اور یہاں پر صدیوں سے اس شیولنگ کی دیکھ ریکھ کرتے آرہے ہیں۔
ایک اور مقامی شخص کا کہنا ہے کہ جہاں ملک بھر میں فرقہ پرستی کی سیاست جاری ہے اور ہندو اور مسلمانوں کو ایک دوسرے کا دشمن بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے تو وہیں وادی کشمیر ایک واحد جگہ ہے جہاں پر اکثریتی طبقے کے لوگوں کی مذہبی عبادتگاہوں کی دیکھ ریکھ مسلمان اور سکھ کر رہے ہیں۔ او ایک دوسرے کے سکھ دکھ میں شریک ہوتے ہیں۔