سرینگر: وادی کشمیر میں مرد دستکاروں کی طرح خواتین دستکاروں نے بھی اپنی تمام ترصلاحیتوں کو بروئے کار لا کر مختلف دم توڑتی ہوئی دستکاریوں کو زندہ رکھا ہے۔ تاہم ان خواتین دستکاروں کا کہنا ہے کہ حکومت کی عدم توجہی اور کاروباریوں کی لوٹ کھسوٹ ان کی حوصلہ شکنی کا موجب بن رہی ہے اور وہ بھی اب کسب معاش کے لئے دوسرے وسائل کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔Women artisans Of Kashmir
وسطی ضلع بڈگام کے ہاورہ کرمشور سے تعلق رکھنے والی محمودہ بانو گذشتہ بیس برسوں سے تلہ سوزی کا کام کرکے نہ صرف اپنی روزی روٹی کی سبیل کر رہی ہیں بلکہ وادی کی اس منفرد دستکاری کو زندہ رکھے ہوئے بھی ہے۔ ان کے ساتھ قریب تیس پڑھی لکھی لڑکیاں بھی یہ کام کرکے اپنے گھر کے اخراجات کی بھرپائی کے لئے اپنے والدین کا تھوڑا بہت ہاتھ بٹاتی ہیں۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ حکومت کی عدم دلچسپی اور بیوپاریوں کی طرف سے کم اجرت ملنے سے وہ دل شکستہ بھی ہیں۔Women artisans associated with tilla work
محمودہ نے یو این آئی کے ساتھ اپنی گفتگو میں کہا کہ میرے ہاتھ کی تلہ سوزی کو بیوپاری بہت پسند کرتے ہیں اور خریدار بھی اس کے فریفتہ ہیں لیکن اجرت بہت کم ملتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’میں گذشتہ قریب بیس برسوں سے یہ کام کرتی ہوں اور میرے ساتھ قریب تیس لڑکیاں جڑی ہوئی ہیں جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں لیکن ہمیں بہت کم اجرت ملتی ہے‘۔ ان کا کہنا تھا: ’کاروباری بہت کم اجرت دیتے ہیں ان کو بھی کمانا ہے لیکن ہم بھی بھر پور اجرت کے حقدار ہیں جو ہمیں نہیں ملتی ہے‘۔ Women Artisans Associated with different embroidery forms
موصوفہ نے کہا کہ وادی میں تلہ سوزی کی مانگ میں کوئی کمی نہیں ہے بلکہ اس کی مانگ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اب صرف دلہنوں کے کپڑوں پر ہی تلہ سوزی نہیں کرتے ہیں بلکہ اس کے علاوہ بھی مختلف ڈیزائن تیار کرتے ہیں جن کی کافی مانگ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک پھیرن (کشمیر کا روایتی لباس) پر پانچ تولہ تلہ سوزی کا کام کرنے کے لئے کم سے کم ایک ماہ لگ جاتا ہے اور پھر ہمیں زیادہ سے زیادہ پانچ ہزار روپیے مزدوری ملتے ہیں جس میں سے تلہ وغیرہ کا خرچہ خود ہی برداشت کرنا پڑتا ہے۔