سمبل سے سوپور جانے والے یا اس راستے سے گزرنے والے افراد جب نائدکھے کے مقام پہ پہنچتے ہیں تو یہاں ایک عالیشان محل انہیں رکنے پر مجبور کرتا ہے اور وہ اسے دیکھنے کے لئے یہاں کچھ لمحے گزارتے ہیں۔
راج محل سے معروف یہ عمارت نہ ہی کسی بادشاہ کی ہے اور نہ ہی اس کی تاریخ زیادہ پرانی ہے۔ یہ راج محل یہاں کے ایک تاجر عبدالرزاق ہُرا جو پورے علاقے میں راجِ مام کے نام سے معروف تھے، نے سنہ 1980 کے دوران اس عمارت کو تعمیر کرایا تھا۔
راج محل فن تعمیرات اور کاریگری کے لحاظ سے اپنی نوعیت کا ایک بہترین فن پارہ ہے لیکن خوابوں کے اس محل کا نہ آج مالک زندہ ہے اور نہ معمار۔ راجِ مام کو اُس دور میں اس عالیشان محل کو تعمیر کرنے کی کیا ضرورت پیش آئی یا اس کے پیچھے ان کی کیا سوچ تھی، وہ راز ان کے انتقال کے ساتھ ہی دفن ہوگئے۔ تاہم یہاں کے لوگ اس محل کے بننے کے تعلق سے کئی کہانیاں بیان کرتے ہیں۔
کچھ افراد کا کہنا ہے کہ وہ شاہجہاں کی طرح کسی لڑکی کے عشق اور یاد میں تاج محل کی کہانی کو دہرانا چاہتے تھے جو وہ نہیں کرپائے۔ کچھ اس کو ان کے شوق اور خوش مزاجی سے تعبیر کرتے ہیں۔ کئی لوگوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ راجِ مام چونکہ ایک معروف تاجر تھے اور اکثر و بیشتر نئی دہلی اور دیگر شہروں میں ان کا آنا جانا لگا رہتا تھا تو عین ممکن ہے کہ وہ دہلی میں مغل بادشاہوں کے آرکیٹیکٹ سے متاثر ہوئے اور انہوں نے بعد میں یہاں یہ عمارت راج محل کے نام سے تعمیر کی۔