آندھرا پردی شہائی کورٹ نے یہ فیصلہ سنایا ہے کہ ایک ہی جملے میں تین بار طلاق کو زبانی طور پر نہیں کہا جا سکتایہ اسلامی قانون کے اصولوں کے خلاف چاہے،گرچہ اسے طلاق نامہ کی شکل میں ہی کیوں نہ لکھا گیا ہو، ایسے طلاق نامہ سے نکاح فسخ نہیں ہوتا۔ اسلامی قوانین کے مطابق ثالثوں کو شوہر اور بیوی دونوں کی طرف سے صلح کرانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ جب یہ ممکن نہ ہو تو پھر معقول وجوہات کی بنا پر تین طلاقیں مختلف اوقات میں دینی ہوگی، اور ان تینوں صورتوں میں ایک ضروری وقت (وقت کا فرق) ہونا چاہیے،اور خاوند بیوی کو طلاق کے بارے میں بتائے۔
Andhra Pradesh High Court's decision on triple talaq
یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے 'سائرہ بانو' کیس میں فیصلہ سنایا تھا کہ ایک ساتھ تین طلاق دینے سے شادی کو منسوخ کرنا غیر آئینی ہے۔ موجودہ کیس میں سوائے اس کے اور کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا کہ شوہر نے کہا کہ طلاق نامہ رجسٹرڈ ڈاک کے ذریعے بھیجا گیا ہے، اس میں کہا گیا ہے کہ ایک جملے میں تین بار طلاق کہنا اور لکھ کر بھیجنا یہ غلط ہے۔ اس تناظر میں،عدالت نے واضح کیا کہ وہ ایک بیوی کے طور پر اپنے شوہر سے الگ رہنے کی وجہ سے کفالت کی حقدار ہے۔ یہاں تک کہ ایک طلاق یافتہ مسلم خاتون بھی سی آر پی سی کی دفعہ 125 کے تحت اپنے شوہر سے ساری زندگی (جب تک کہ وہ دوبارہ شادی نہ کر لے) کے لیے کفالت کی حقدار ہے۔ عدالت نے کہا کہ اگر اسے مناسب گزارہ الاؤنس دیا جائے تو وہ پرسکون زندگی گزار سکیں گی۔ ہائی کورٹ کے جج جسٹس رویناتھ تلہری نے حال ہی میں اس سلسلے میں ایک اہم فیصلہ سنایا۔