دراصل 21 اور 20 مارچ سنہ 2000 میں نا معلوم وردی پوش چند مسلح افراد نے ضلع اننت ناگ کے چھٹی سنگھ پورہ میں سکھوں کو جمع ہونے کی ہدایت دی۔ اس کے بعد ان پر اندھا دھند فائرنگ کرکے پینتیس سکھوں کا بے دردانہ قتل کیا۔
سکھوں کا بے دردانہ قتل کیا یہ خون کی ہولی اس وقت کھیلی گئی جب اُس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن بھارت کے دورے پر آئے تھے۔
اگرچہ کشمیر میں گزشتہ تین دہائیوں سے جاری مسلح شورش کے دوران مبینہ اجتماعی قتل کے کئی واقعات انجام دئے گیے۔ تاہم چھٹی سنگھ پورہ کا وہ واقعہ مسلح شورش کا ایک سیاح ترین باب تھا۔ وہ ایک ایسا انسانیت سوز اور دل دہلانے والا واقعہ تھا جس کے صدمے سے متاثرین ابھی بھی باہر نہیں آ رہے ہیں۔
حالانکہ کسی بھی عسکریت پسند تنظیم نے اس قتل عام کی ذمہ داری قبول نہیں کی تھی۔ تاہم اس سانحہ کے پانچ روز بعد ہی فوج نے ضلع اننت ناگ کے پتھری بل علاقہ میں پانچ غیر ملکی عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ جنہیں پتھری بل سانحہ میں ملوث بتایا گیا تھا۔ لیکن بعد میں وہ عام شہری ثابت ہوئے۔
وہیں علیحدگی پسند رہنماؤں نے اس واقعہ کو افسوس ناک قرار دے کر عالمی برادری کو ایسے سانحات کی تحقیقات اور ان میں ملوث افراد کو سزا دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ ان کا یہ ماننا تھا کہ یہ واقعہ کشمیریوں کو بدنام کرنے کی ایک سازش کے تحت انجام دیا گیا ہے۔
حکومت کی جانب سے اس قتل عام کی تحقیقات کے سلسلہ میں کئی حکم نامے بھی صادر کئے گئے۔ تاہم زمینی سطح پر اس کے خواطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے۔ جس کی وجہ سے شک و شبہات کی گنجائش پیدا ہو گئی اور متاثرین کئی طرح کے خدشات سے دوچار ہو گئے۔
بیس سال گزر جانے کے بعد بھی متاثرین کی امیدیں ٹوٹی نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کو تب تک سکون نہیں ملے گا جب تک نہ ان قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچایا نہ جائے۔