غلام رسول جنوبی کشمیر کے پہلگام کے ایک گاؤں ہردوکاتھل سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی تقرری سنہ 1979 میں محکمہ اسکول ایجوکیشن میں بطور کنٹنجنٹ پیڈ ورکر کے طور پر ہوئی تھی۔ غلام رسول کو اس وقت سے آج تک محض 20 روپے ماہانہ اجرت ملتی ہے۔
غلام رسول کہتے ہیں کہ وہ تقرری کے دن سے ہی پوری ایمانداری اور وقت کی پابندی سے کام کررہے ہیں، انہیں امید تھی کہ ان کی تقرری کسی دن مستقل ہوجائے گی۔ مگر غلام رسول کی بدقسمتی ہے کہ 35 سال گذر جانے کے بعد بھی نہ تو انہیں مستقل کیا گیا اور نہ ہی ان کے مشاہرے میں اضافہ کیا گیا۔
وہ آج بھی محض 20 روپیہ ماہانہ تنخواہ لے کر اپنے اہل و عیال کی کفالت کر رہے ہیں۔ یہ انتہائی تشویش کی بات ہے کہ نوکری کو مستقل ہونے کا خواب اور تنخواہ میں اضافہ ابھی تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوا ہے۔
غلام رسول اس قلیل مشاہرے سے متعدد پریشانیوں میں مبتلا ہیں۔ ان کی زندگی کی گاڑی بمشکل ہی چل رہی ہے۔ کنبے کی پرورش وہ کیسے کرتے ہیں سوچ کر ہی خوف آتا ہے۔
غلام رسول نے اپنے دکھ کا اظہار ای ٹی وی بھارت سے ان لفظوں میں کیا 'میں گذشتہ 35 برسوں سے ملازمت کی مستقلی اور مشاہرے میں اضافے کا انتظار کرتا رہا لیکن اب تھک چکا ہوں اور بہت مایوس ہوں ،کیوں کہ میں نے ہمیشہ سخت محنت کی اور سنہ 1979 میں جس دن میری تقرری ہوئی، اس دن سے ہی ایمانداری کے ساتھ اپنے فرائض سرانجام دے رہا ہوں'۔