کشمیر کا ایک بہت بڑا طبقہ ایسا ہے جو سیاحت پر منحصر ہے، کیونکہ وہ اپنی روزی روٹی اسی سے کماتے ہیں۔ لیکن گذشتہ ایک برس سے وادی میں نامساعد حالات کی وجہ سے یہاں سیاحتی شعبہ مکمل طور پر ٹھپ ہے۔ اس وجہ سے یہاں سیاحتی شعبے سے منسلک افراد کو مشکلات کا سامنا ہے۔
اننت ناگ کے بجبہاڑہ میں قائم چینی وُڈر نامی علاقہ ایپل ویلی کے نام سے مشہور ہے۔ یہاں ملکی اور غیر ملکی سیاح وادی کے شہرہ آفاق پہلگام کا رُخ کرتے تھے۔ سیاحوں کا آنا اور جانا اس علاقہ سے ہوا کرتا تھا۔ یہاں کے سیب کے باغات سیاحوں کو اپنی جانب راغب کرتے تھے۔ اور یہی وجہ ہے کہ چینی وُڈر میں سیاحوں کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔ بعد میں مقامی لوگوں نے اسی جگہ پر سیاحوں کے لئے مختلف طرح کی دکانیں کھول دیں، جن میں خاص طور پر ہوٹل، شال بافی کی دکانیں سمیت دیگر اشیا کی دکانیں قابل ذکر ہیں۔ ان دکانداروں کا روزگار محض سیاحت پر منحصر ہے۔
گذشہ برس مرکذی حکومت نے دفعہ 370 کی منسوخی سے دو روز قبل وادی سے تمام سیاحوں کا انخلاء کیا- جبکہ رواں برس کووڈ-19 کے پیش نظر لاک ڈاون کی وجہ سے سیاح وادی کی طرف نہیں آ پائے۔ نتیجتاً سیاحت سے جڑے سینکڑوں افراد کو شدید مالی نقصانات سے جوجھنا پڑا۔
سیاحت سے وابستہ لوگوں کے مطابق اُن کے روزگار پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ لوگ اب صرف اس کی آس لگائے بیٹھے ہیں کہ کب کورونا وائرس کی ویکسین تیار ہونے کی خبر آئے کہ اُن کی زندگی پھر سے پٹری پر لوٹ آئے۔
مقامی دکانداروں کا گورنر انتظامیہ سے مطالبہ ہے کہ ان کو بلاتاخیر معاوضہ دیا جائے تاکہ لاک ڈاون اور ہڑتال میں ہوئے نقصانات کی بھرپائی ممکن ہو سکے۔