جسٹس حسنین مسعودی نے کہا کہ 5 اگست 2019 کو یکطرفہ فیصلوں کی رو سے جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت تھس نہس کی گئی اور ریاست کے تین ٹکڑے کیے گئے۔ ہزاروں لوگوں کی گرفتاری عمل میں لا کر لاک ڈاؤن کر کے ایک سناٹا پیدا کیا گیا۔
حلقہ اننت ناگ سے رُکن پارلیمان جسٹس(ر) حسنین مسعودی انہوں نے کہا کہ وہ سناٹا امن نہیں ہے اور میرا یہ فرض ہے کہ میں ملک کو اس ایوان کے ذریعے بتاؤں کہ سناٹے کا مطلب امن نہیں ہے۔
نیشنل کانفرنس کے سینیئر رہنما نے بتایا کہ جب تک خطے میں امن نہ ہو تب تک ترقی کا تصور بھی نہیں کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ ایک برس کے دوران وادی میں متعدد انکاونٹرز ہوئے ہیں جن میں سے 20 فیصد شہری علاقوں میں ہوئے ہیں۔ ان انکاونٹرز میں چار لوگوں کی ہلاکت ہوئی ہے، جس میں سکیورٹی افسران بھی شامل ہیں۔
حسنین مسعودی نے بتایا کہ ضلع کرگل کے ساتھ امتازی سلوک کیا گیا ہے، لہیہ کے لیے سینٹرل یونیورسٹی کا اعلان کیا گیا۔ ایل جی کے لیے کہا گیا ہے کہ وہ کرگل میں بھی بیٹھے گا لیکن وہ وہاں نہیں بیٹھے۔ اس کے علاوہ صوبائی کمشنر کو بھی لہیہ میں رکھا گیا ہے۔ کرگل ائیر پورٹ پر کوئی پیشرفت نہیں ہوئی ہے۔ وہاں سڑکوں کی حالت بہت ہی خستہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کی جانب سے جموں و کشمیر کے لیے گیس پائپ لائن کا اعلان کیا گیا لیکن دراصل سنہ 2011 میں 784 کلومیٹر گیس پائپ لائن کو شروع کرنے کا اعلان کیا گیا تھا اور گجرات پٹرول لیمٹڈ کو لائسنز فراہم کی گئی تھی۔ لیکن اس کا سہرا بی جے پی اپنے سر باندھتی ہے۔