کشمیری نوجوان کا بڑھئی سے شیڈو آرٹسٹ تک کا سفر اننت ناگ (جموں کشمیر) :اگر انسان کے حوصلے بلند ہوں اور من میں کچھ کرنے کی چاہت ہو تو بڑی سے بڑی مشکل بھی اُس کے آڑے نہیں آتی۔ جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ کے مین ٹاؤن سے تقریباً 35 کلومیٹر کی دوری پر واقع کوکرناگ کا ماگم نامی نہ صرف قدرتی حسن سے مالامال ہے بلکہ یہ علاقہ کورکرناگ کے مردم خیز علاقوں میں بھی شمار ہوتا ہے۔ اسی علاقے سے تعلق رکھنے والے 25 سالہ سہیل احمد بٹ کو قدرت نے بیش قیمتی ہنر سے نوازا ہے۔ گرچہ سہیل پیشے سے ایک بڑھئی ہے تاہم انہیں بچپن سے ہی کچھ الگ کرنے کی چاہت رہی ہے، محض دسویں جماعت تک مروجہ پڑھائی کے بعد سہیل نے بڑھئی کے شعبہ کو ہی ترجیح دی اور اپنے طور پر کئی تخلیقی کام بھی انجام دئے۔
سہیل کے برادر، عبید احمد، کا کہنا ہے کہ ’’سہیل احمد کا پڑھائی لکھائی میں من نہیں لگتا تھا۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’وہ بچپن سے ہی مختلف چیزوں کو لے کر نئے نئے تحقیق کرتا تھا، حالانکہ اُس وقت گھر کا کوئی بھی فرد اسے سپورٹ نہیں کرتا تھا، جبکہ متعدد بار والدین کی جانب سے ڈانٹ ڈپٹ بھی کی گئی۔‘‘ عبید احمد کا کہنا ہے کہ ’’اتنی مشکلات کے باوجود بھی سہیل احمد نے کھبی ہمت نہیں ہاری اور اپنے کام کاج کے ساتھ ساتھ اپنے مشغلہ کو بروئے کار لاتے ہوئے دن، رات محنت کی۔‘‘ عبید کا دعویٰ ہے کہ ’’سہیل نے تاحال کئی ایجادات کی ہیں اس کے ساتھ ساتھ وہ مشہور شخصیات کا شیڈو آرٹ بھی بنا چکا ہے۔‘‘
مزید پڑھیں:Meet Danish Ahmad an Innovator : متعدد اختراعات کرنے والے کشمیری انوویٹر دانش احمد سے خصوصی گفتگو
سہیل کی والدہ، غلام فاطمہ، کا کہنا ہے کہ ان کے علاقے میں گرچہ بنیادی سہولیات کا فقدان ہے تاہم ایسے دیہی علاقے میں وسائل کے بغیر ان کے فرزند کا یہ کارنامہ ان کے لیے باعث فخر ہے۔ سہیل کی والدہ نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ خصوصی گفتگو کے دوران کہا: ’’ہمارا گمان تھا کہ سہیل اپنا وقت ضائع کر رہا ہے اور ہم اتنا سپورٹ نہیں کرتے تھے تاہم اسکی محنت اور لگن نے ثابت کر دکھایا کہ اس کا ہنر معمولی نہیں۔ دن بھر بڑھئی کا کام کرکے جب وہ گھر واپس لوٹتا ہے تو شام کے وقت شیڈو بنانے میں اپنا وقت خرچ کرتا ہے۔‘‘ انہوں نے انتظامیہ سے سہیل کی معاونت کی بھی درخواست کی ہے۔
شیڈو آرٹست سہیل احمد کا کہنا ہے کہ انہیں بچپن سے ہی کچھ الگ کرنے کا جنون سوار تھا۔ وہ زندگی میں عوامی بہبود کے لیے کچھ ایسا کرنا چاہتے ہیں جو انسانیت کے کام آ سکے، تاہم وسائل کی کمی کے باعث ان کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو پا رہا۔ سہیل کا کہنا ہے کہ وہ اپنے ہنر شیڈو آرٹ سے کچھ ایسا تخلیقی کام انجام دینا چاہتے ہیں جس جو نئی نسل کے لیے فائندہ مند ثابت ہو سکے۔ سہیل نے کہا: ’’آج کل کے بچے اسمارٹ ٹی وی، فون وغیرہ میں وقت برباد کر رہے ہیں، میری خواہش ہے کہ میں نئی نسل کے لیے کچھ ایسا کام کر سکوں جس سے وہ اپنا وقت اسمارٹ فون کے بجائے تخلیقی کاموں میں خرچ کر سکیں۔‘‘