وادی کشمیر میں غریب کنبوں سے وابستہ اور یتیم و نادار 40 ہزار سے زائد لڑکیاں بغیر شادی کے عمر کی دہلیز پار کرگئی ہیں۔ ان کی شادی نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ مالی تنگی ہے۔ حکومت نے اس کے لیے ایک اسکیم شروع کی۔ اس اسکیم کے تحت لڑکیوں کو 40 ہزار روپے فراہم کیے جاتے ہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے شروع کی گئی یہ اسکیم کسی مزاق سے کم نہیں ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ سماج کے غیر ضروری رسوم و رواج کو پورا کرنے کے لئے درکار کثیر رقومات کی عدم دستیابی سے غریب کنبوں کی لڑکیاں خود کشی کرنے پر مجبور ہو رہی ہیں۔
مقامی لوگوں کے مطابق وادی کشمیر میں امیر گھرانوں کی لڑکیوں کی شادیوں پر کروڑوں روپے صرف کئے جاتے ہیں۔ شادیوں میں جہیز میں ان لڑکیوں کو موٹر، کاریں، سونے کے زیورات اور دیگر قیمتی چیزیں دی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ شادی کی تقریبات میں بے جا اخراجات کیے جاتے ہیں۔ اس سے درجنوں غریب لڑکیوں کے ہاتھ پیلے ہوسکتے ہیں۔ لیکن معاشرے میں یہ خلیج بڑھتی جارہی ہے۔ غریب بچیاں شادیوں کے انتظار میں بوڑھی ہوجاتی ہیں تو امیر بچیوں کی شادی ان کے والدین جب چاہیں کر دیتے ہیں۔
لوگوں کے مطابق کچھ لڑکیاں عمر کی حد اس لئے پار کر جاتی ہے، کیونکہ اُن کے گھر والے معیار کا رشتہ ڈھونڈنے میں اپنا اچھا خاصہ وقت برباد کر دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیر میں پڑھے لکھے نوجوانوں کی کوئی کمی نہیں ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کشمیر کے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان اس وقت نجی سکولوں میں قلیل مشاہرے پر نوکریاں کررہے ہیں، ایسے میں سرکاری نوکری والا لڑکا ڈھونڈنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔
لوگوں کا کہنا ہے کہ سرکار کی جانب سے شادی کے لیے لڑکیوں کو 40 ہزار روپے دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ اس لیے لاکھوں لڑکیوں نے محکمہ سوشل ویلفیئر کے مختلف دفاتر میں فارم داخل کیے لیکن ان کو کوئی معاونت فراہم نہیں کی گئی۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت کا یہ وعدہ کاغذ تک ہی محدود ہے۔